کپاس کی ترقی مضبوط معیشت کی ضامن
ساجدمحمود
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشنز کی جانب سے جاری کردہ کپاس کے اعدادوشمار کے مطابق یکم جنوری2023 تک46لاکھ12ہزار687گانٹھیں جننگ فیکٹریوں میںآئیں جو گزشتہ برس اسی مدت میں73لاکھ47ہزار404گانٹھوں کے مقابلہ میں27لاکھ34ہزار717 گانٹھیں کم ہیں یعنی امسال گزشتہ برس کی نسبت 37.22فیصد کم ہیں) یاد رہے کپا س کی ایک گانٹھ کا وزن170کلوگرام ہوتا ہے(۔ پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری کی اس وقت کل گانٹھوں کی ضروریات15لاکھ ملین سے زائد ہے جبکہ رواں برس بمشکل 5ملین تک ہی گانٹھیں پیدا ہونے کی توقع ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ضروریات کے پیش نظر رواں سال ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
آج ملک کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے جس سے تمام ملکی ادارے،عوام اور معیشت کا پہیہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ مہنگائی ا ور غربت اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ہمیں آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پر قرضہ لینے اور ملک چلانے کے لئے1-2ارب ڈالرز کے لئے پاپڑ بیلنا پڑ رہے ہیں۔عالمی مارکیٹ میں کپاس کی1ملین گانٹھ کا مطلب ہے1ارب ڈالر یعنی اگر ہم اپنی کپاس کی6ملین گانٹھوں میں اضافہ کرلیں تو ہم اسی فصل سے6ارب ڈالرز کا زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں2004-5اور سال2014-15میں تقریباًڈیڑھ کروڑ گانٹھوںکی پیداوارہوئی۔
پاکستان کا ماضی بتاتا ہے جس سال بھی ملک میں کپاس کی فصل شاندار ہوئی پورے ملک میں خوشحالی،امن اور لوگوں کے چہروں پر خوشی محسوس کی گئی۔
حالیہ برس میں کاٹن کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے جس کے بہت سے عوامل ہیں لیکن اس مرتبہ کپاس کی فصل کو سیلاب سے بہت نقصان پہنچاہے۔ سیلاب سے سندھ میںتقریباً70فیصد کپاس کی فصل کو نقصان پہنچا، بلوچستان میں100فیصد جبکہ جنوبی پنجاب میں تین اضلاع خاص کر ڈی جی خان،راجن پور اور مظفر گڑھ میں تقریباً2لاکھ سے زائد ایکڑ پر کھڑی کپاس کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا۔ اسی طرح بارشوں کے تسلسل نے بھی کپاس کو کافی متاثر کیا۔
جبکہ ہمارے ہاں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ ہم صرف کاٹن سے ہی 20ارب ڈالرز سے زائد سالانہ زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔ایک وقت تھا جب ہم دیگر فصلات کی طرح کپاس میں بھی خود کفیل تھے لیکن ارباب اختیار کی مسلسل عدم توجہ کے باعث آج ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود ایک عرصے سے گندم، کپاس، چینی جیسی اجناس بھی درآمد کرنے پر مجبور ہیں جس پر بھاری ملکی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ذرائع کے مطابق اس مرتبہ ہمیں تقریبا3-4ارب ڈالرز کی کپاس باہر سے منگوانا پڑے گی۔معاشی لحاظ ایک کمزورملک کیلئے قومی خزانے پریہ بڑا بوجھ ہے جس کی قیمت ہم مہنگائی و غربت کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
پاکستان کی کل آبادی کا کاٹن ویلیو چین میں35فیصد سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جو کبھی45فیصد ہواکرتا تھا ۔ جبکہ جی ڈی پی میں کاٹن کا حصہ انتہائی سکڑکر اب0.7-0.8فیصد رہ گیا ہے جو تقریباً2دہائی پہلے تک 2.5فیصد سے کچھ زائد ہوا کرتا تھا۔اس وقت کاٹن کا زرعی ویلیو ایڈیشن میں4.5فیصد حصہ ہے جبکہ ماضی میں زرعی ویلیو ایڈیشن میں حصہ11فیصد سے زائدرہاہے۔اسکے برعکس پاکستان سالانہ8ارب ڈالر سے زائد کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے جو خزانے پر ایک بوجھ ہے۔
اگر ملک میں کپاس کی اچھی پیداوار ہو تو ہم ملکی ضروریات کا60فیصد سے زائد خوردنی تیل بناسپتی گھی وغیرہ خود پیدا کرسکتے ہیں اور ماضی میں ہم65-70فیصد خوردنی تیل پیدا کرتے آئے ہیں۔اس کے علاوہ بنولے کے تیل سے صابن،ربڑ کاسمیٹکس،پلاسٹک دواسازی سمیت کئی دیگر مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح کپاس کے بنولے سے تیل نکالنے کے بعد دودھ کی پیداوار میں اضافے کے لئے خام مال یعنی کھل جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی ہے جبکہ سالانہ 22ارب کی کپاس کی چھڑیاں بطور ایندھن استعمال ہوتی ہیں۔یہ ایک مختصر سا خلاصہ ہے کہ کس طرح ہم صرف ایک فصل کپاس سے اربوں ڈالرز کیے درآمدی اخراجات بچا سکتے ہیں اورقومی
خزانے کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ارباب اختیار کی عدم دلچسپی اور کاٹن زون میں گنا ،مکئی اور دیگر اجناس کی کاشت سے کپاس کی فصل اور اس کے رقبہ میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے ،جس کی طرف خاص توجہ دینے اور لانگ ٹرم پالیسی بنانے کے اہم ضرورت ہے تاکہ ٹیکسٹائل کی صنعت سے ہم اپنی ایکسپورٹ کو بڑھا سکیں اور کثیر ملکی ذرائع مبادلہ کما کر اپنے مقروض ملک کو قرضوں سے نجات دلا سکیں۔پاکستان میں انڈسٹری کو خام مال کی زیادہ تر فراہمی کاٹن سے ہی ہوتی ہے جس سے معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے۔الغرض کاٹن اور ٹیکسٹائل انڈسٹری ہماری معیشت کے اہم ستون ہیں۔ صرف کپاس کی بہترین فصل کے ذریعے ہی ہم معاشی دلدل اور آئی ایم کے چنگل سے آزاد ہو کر خوشحالی وترقی کے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔