امریکی جنگ کے اثرات اب تک پاکستان میں موجود ہیں: عمران خان 

لاہور: سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی جنگ کے اثرات اب تک پاکستان میں موجود ہیں.امریکی جنگ میں شامل ہونے سے نقصان زیادہ، معاوضہ معمولی ملا. اگر نیوٹرل رہتے تو حالات بہت بہتر ہوتے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی سے متعلق سیمنار سے خطاب میں کہا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔

تحریک انصاف کی جانب سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے متعلق سیمنارسے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ ہے. میں کہہ رہا تھا ہمیں نیوٹرل رہنا چاہیے کسی کی جنگ میں شریک نہیں ہونا۔سربراہ پی ٹی آئی عمران خان نے کہا 80 کی دہائی میں مجاہدین کو ٹریننگ دی گئی.ہم نے امریکا کی جنگ میں بیس سال شرکت کی اورامریکا کی جنگ کے اثرات ابھی تک پاکستان میں ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نائن الیون کے بعد سابق صدرمشرف نے تمام سیاسی قائدین کو بلایا، ہمیشہ کہا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں ہمیں نیوٹرل رہنا چاہیے۔ مشرف نے کہا کہ ہم امریکا کو صرف لاجسٹک سپورٹ فراہم کریں گے۔  امریکی دباؤ میں آ کر ہم آہستہ آہستہ ان کی جنگ میں ملوث ہو گئے۔  ہم نیوٹرل ہوتے تو دشمنوں کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔انھوں نے کہا کہ امریکا کو افغانستان میں خود حملوں کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوا۔ خود کش حملوں کا توڑ نہ ہونے کی وجہ سے امریکا نے جانے کا فیصلہ کیا۔ طالبان کے پاس وہی جدید ہتھیارہیں جو امریکا چھوڑگیا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد مسائل حل کرنے کا سنہری موقع تھا۔ میں نے مسائل بات چیت سے حل کرنے کا کہا تو مجھے طالبان خان کہا گیا۔ کے پی کے لوگوں کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن مجھے پتا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ افغانستان میں اشرف ٖغنی کی حکومت بھارت کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم نیوٹرل نہیں ہوتے تو انھیں موقع نہیں ملتا۔ 2021 میں جب امریکا افغانستان سے گیا تو ہمارے پاس موقع تھا۔ افغانستان میں ایسی حکومت آئی جو پاکستان کی حمایتی تھی۔سیمینارسے خطاب میں انھوں نے کہا کہ دہشت گرد کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان قبائلی علاقوں میں ہوا۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ افغانستان میں کوئی عمل دخل نہیں کریں گے یہ وہ وقت تھا جب ہم پرامن سیٹلمنٹ کرتے .لیکن ن لیگ کی حکومت نے آتے ہی ضم ہونے والے علاقوں کے فنڈز روک دیے۔

عمران خان نے کہا کہ انھوں نے دہشت گردی کے مسئلے پرسنجیدگی سےغور نہیں کیا۔ حکمران ساری دنیا میں بھیک مانگ رہے ہیں، اتنے برے معاشی حالات پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ حکومت سیلاب کے نام پر دنیا سے پیسے مانگ رہی ہے۔

چیئرمین تحریکِ انصاف نے عندیہ دیا کہ کے پی پولیس تنہا دہشتگردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ پہلے طالبان کو مجاہدین کہا گیا بعد میں دہشت گرد قراردیا گیا۔ کے پی میں دہشگردی بڑھی تو پورے ملک پر اثرات پڑیں گے۔ دہشگردی بڑھ گئی تو ہماری معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے ہماری بات چیت کا بے بنیاد پروپگینڈہ کیا جا رہا ہے۔ خیبرپختون خوا حکومت تنہا دہشت گردوں سے نہیں نمٹ سکتی۔ کے پی حکومت کو دہشت گردی کے مسئلے پر اعتماد میں لیا جائے. ملٹری آپریشن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اس سے بچنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ سرحدوں کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے۔ وزراغیرذمے دارانہ بیانات دے رہے ہیں کہ افغانستان میں جا کر حملہ کریں گے۔ وزیرخارجہ کو کو سب سے پہلے افغانستان جانا چاہیے تھا۔ افغانستان سے معاملات خراب ہوگئے تو دہشتگردی کا مسئلہ دوبارہ عذاب بن جائے گا۔ ماضی میں امریکی ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کا بدلہ پاکستان سے لیا جاتا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ فاٹا انضمام کے بعد فیصلہ ہوا تھا کہ صوبے این ایف سی سے تین فیصد دے گے. لیکن 2018  کے بعد صرف پنجاب اور کے پی نے پیسے دیے۔ بلوچستان سے پیسا نہیں آیا اورسندھ نے صاف انکار کردیا.  کے پی نے اپنے فنڈز سے فاٹا کو پیسے دیے۔

اس سے قبل چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ قاتلانہ حملے کی تحقیقات کرنے والوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ جے آئی ٹی سے الگ ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے. تصدیق ہوگئی کہ قاتلانہ حملے کے پیچھے طاقتور حلقوں کا ہاتھ تھا۔

ای پیپر دی نیشن