کالم:لفظوں کا پیرہن تحریر:غلام شبیر عاصم
جب گاوں کے راستے کچے،مکدر اور منحنی ہوتے تھے،پگڈنڈیوں اور راستوں پر گرد کے ہیولوں کا رقصِ شرر اوپر آسمان کی طرف اْٹھتا اور لمحوں تک کسی آسیبی مخلوق کی طرح رقص کرتے رہتا تھا۔اڑتے اور ناچتے ہوئے اس گرد و غبار کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے یہ راستے وجد میں ہیں،دھمال میں بے خود ہوگئے ہیں۔ماضی میں اس وقت تک ان بولتے ،ناچتے اور ہنستے راستوں کو بجری اور سیمنٹ کی ضخیم تہہ کی سڑکوں نے اپنے تلے نہیں روندا تھا۔اب یہ راستے روندے بھی گئے اور رندھے بھی گئے ہیں۔اس وقت اکثر مکانات کچے ہوتے تھے۔لوگ تب سِیدھے سادے،شفاف سوچیں اور مزاج کْھلے ہوتے تھے۔نفرت،منفیت، منافقت , رعونت آمیز رویوں اور زہریلے لہجوں کی فصل نے اس وقت تک شریف خون کے اندر ہریالی نہیں پکڑی تھی۔شرافت،ملائمت اور شفافیت جیسی صفات خون میں حِدت اور شِدت بن کر رگوں میں دوڑتی پِھرتی تھیں،اور یہی خون کی فطری زندگی کا اصل رنگ تھا،اس وقت تک تو اِس میں حیوانیت و سفاکیت اور فرعونیت کے آسیب نے ڈیرے نہیں ڈالے تھے۔ انسان فطرت کے قدرتی رنگوں میں دلہن کی طرح سجی ہوئی پْرکیف زندگی کو مکر و فریب اور خوف سے پاک گزار رہے تھے۔مگر اب وقت کی جِدت خون کی اْس حِدت اور جذبوں کی شدت کو گویا پی گئی ہے۔خون اب سفید سا ہو گیا ہے۔رگِ حِرص و ہوس اور مادہ پرستی کی شاخ پر سبزہ اْتر آیا ہے۔مفید معاشرتی قدریں اور مروّت بھری رسمیں زمانے کی جدیدیت اور نوخیزیوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں۔بصیرت کو گویا نِت نئی زمانہ سازی کی کثافتوں نے مفلوک و ملفوف کردیا ہے۔لگتا ہے زندگی حقیقی پیرہن سے نکل کر بے رنگ و بے ڈھنگ سی ہوگئی ہے ، مناظرِ حیات نے بے رونقی کا زہر پی کر خودکشی سی کرلی ہے۔کْھلی آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا سا چھایا ہوا ہے۔راستے اور منزلیں ہیں کہ تِیرگی میں اپنے معانی و مفاہیم کھو رہے ہیں۔منزلِ گم گشتہ کو تلاشنے کی فِکر ماند پڑ گئی ہے۔آگہی کا جام مے آشام کے انتظار میں جیسے خشک ہونے کو ہے۔انسان ہیں کہ زیست کی بے ثباتی کی رنگینیوں میں مست و بیخود پڑے موت کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔لوگوں سے اب مِلتے ہیں تو لگتا ہے کسی غیر مرئی جادوئی سی مخلوق سے مل رہے ہیں۔غمِ زندگانی اور تفکرات نے انسانوں کو کھوکھلا کردیا ہے،کئی دھاتوں کے خواص کے مرکب انسانی جسم سے اب محبت اور مروّت کی شعاعیں خارج نہیں ہوتیں۔ہرانسان اب تنہا تنہا سا محسوس ہونے لگاہے۔اربوں کھربوں انسانوں کا یہ جہان"اکیلے پن کے آسیب"کی زد میں آگیا ہے۔کوئی کسی سے مِل کر بھی نہیں ملتا،کسی سے مل کر مِلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ہم کس انجماد کا شکار ہوگئے ہیں۔ زندگی مجسمات کا نگر لگ رہی ہے۔یہ شب و روز یہ لمحے کسی عجیب مخافت میں سسکیاں بھر رہے ہیں،اب زیست ہے کہ گویا برزخ کا عالم ہوگئی ہے۔وسائل کی بھرمار ہے مگر پھر بھی انسان نہ جانے کس شے کی تلاش میں مارے مارے پریشان پھر ریے ہیں۔اس مشینی دور نے ہمارے وجود کی مشین کو زنگ آلود کردیا ہے۔انسانی وجود کے گوشت میں پلنے بڑھنے والے جذبات و احساسات نائیلون کی مصنوعات کے آگے گھٹنے ٹیک گئے ہیں۔ہمیں اب گوشت پوست کے وجودوں سے زیادہ محبت اور لگن ان نائیلون کے جسموں سے ہے۔ آج سرِ بازور کسی کو ذد و کوب بھی کرتا ہے تو لوگ بجائے اس کی مدد کرنے کے موبائل سے ویڈیو بنانا شروع کردیتے ہیں۔زبان سے دوچار الفاظ بول کر رسم و راہ ہموار اور دکھ سکھ ساجھا کرنے کے بجائے سیلفی بنانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔جیسا کہ انڈرائڈ موبائل نے سہولیات فراہم کی ہیں، اور ہمیں پوری دنیا کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔وہاں انسان اس کے ساتھ ضرورت سے زیادہ تعلق جوڑ کر آکل کْھرا بن گیا ہے،اور اس کے کئی منفی پہلووں سے منہمک ہوکر اخلاقی پستیوں کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔