ارتقاء نامہ …سید ارتقاء احمد زیدی
irtiqa.z@gmail.com
پاکستانی ٹیم بڑی حقیقت پسند ہے اسے معلوم تھا کہ پاکستان نے 1995ء کے بعد سے آج تک آسٹریلیا ہی میں کوئی ٹیسٹ میچ نہیںجیتا، اس لیے وہ اس ارادے سے آسٹریلیا گئے ہی نہیںتھے کہ کوئی ٹیسٹ میچ جتیں گے۔ یوں انہوںنے دورے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا، اپنی بیویوں کو سیر کے ساتھ شاپنگ کرائی۔ آسٹریلیا میں با آسانی پاکستانی اور افغانی کھانوں کے ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ دل کھول کر بریانی اور نہاری کھائی ہوگی چنانچہ ان کے لیے یہ دورہ بہت کامیاب رہا۔ تینوں ٹیسٹ میچ چار دن میں ہی ختم ہوگئے۔ پانچواں دن فارغ مل گیا ،مزید گھومنے پھرنے کے مواقع حاصل ہوئے ہونگے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ گھومنے پھرنے کے چکر میں کھلاڑی رات کو پوری طرح سو بھی نہیںسکے اس لئے سلپ میںکھڑے ہوئے کھلاڑیوں کو نیند کے جھونکے آرہے تھے جس کا ثبوت مسلسل کیچ چھوڑنا تھا۔
پاکستانی ٹیم کی فٹنس پر تو ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے؟ اس لئے فیلڈنگ ناقص رہتی ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں پاکستانی کرکٹ کے شائقین اپنے آپ کو تسلی دے لیں گے کہ انہیں تو پہلے ہی امید نہیں تھی کہ ٹیم کوئی میچ جیتنا تو کیا ڈرا بھی نہیں کرسکے گی اور سیریز 3-0سے ہار کر ہی آئے گی۔ لیکن اس دورے سے متعلق کچھ سوالات ذہن میں اٹھتے ہیںاورناصرف کرکٹ کے شائقین بلکہ عام پاکستانی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جس بے دردی سے اس دورے پر زرمبادلہ لگایا گیا اس کا جواب دینا تو بنتا ہے۔ ٹیم کے علاوہ جو لوگ آفیشلز کے طورپر ٹیم کے ساتھ گئے ان کی تعداد کیا تھی؟ ذکاء اشرف کے جانے کا کیا جواز تھا؟ محمد حفیظ کا بحیثیت ڈائریکٹر ٹیم کے ساتھ جانا کیوں ضروری تھا؟ چلیں کوئی بات نہیں انہیں بھی تو گھومنے پھرنے کا حق ہے ۔ لیکن انہیں یہ حق کس نے دیا کہ پریس کانفرنس میں مضحکہ خیز باتیں کرکے پاکستانیوں کی جگ ہنسائی کرائیں ،دوسرے ٹیسٹ کی شکست کے بعد انہیں نے برشرمی اور ڈھٹائی کی تمام حدیں عبور کرکے یہ کہہ دیا کہ ہم میچ تو ہار گئے لیکن ہماری کارکردگی آسٹریلین ٹیم سے اچھی رہی اور دوسری بے تکی بات یہ کر دی کہ رضوان کے غلط آؤٹ دینے کی وجہ سے ٹیم میچ ہارگئی۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ رضوان کو غلط آؤٹ دیا تو کیا ایسا کرکٹ کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہواہے اور کیاایک کھلاڑی کے غلط آؤٹ سے میچ میں شکست ہو جاتی ہے؟ انہوں نے تیسرے ٹیسٹ میچ میں شاہین آفریدی کو نہ کھلانے کے فیصلے کا دفاع کرنے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولے لیکن صرف ایک سچ نہیں بتایا کہ موصوف اپنے سسر شاہد آفریدی کے ساتھ شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کے لئے فنڈریزنگ ( عطیات اکٹھا کرنے ) کی تقریبات منعقدکرنے میں مصروف تھے۔ اگر انہیں ایسا کرنا تھا تو تیسرے ٹیسٹ میچ کے بعد یہ کچھ کرلیتے شائد ان کے تیسرے ٹیسٹ میں کھیلنے سے ہارنے کا مارجن کچھ کم ہو جاتا۔
اس ٹیسٹ سیریز میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ بابراعظم کپتانی سے علیحدہ ہونے کے بعد اپنی پوری توجہ بیٹنگ پردینے سے اچھی کارکردگی دکھائیں گے لیکن انہوں نے بہت مایوس کیا اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ وہ پاکستانی اور دبئی کی مردہ وکٹوں پر ہی بڑا سکور کرسکتے ہیں۔ آسٹریلین فاسٹ وکٹوں پر اسکور کرنے کے لیے انہیں بہت محنت کی ضرورت ہے۔خیر چھوڑیں جو ہونا تھا ہو چکا۔ بقول چوہدری شجا عت ’’مٹی پاؤ‘‘آسٹریلیا دورے کے 2 روشن پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ پہلا عامر جمال کی شاندار کارکردگی اور دوسرا روشن پہلو یہ ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان ٹیم کو پڑھا لکھا اور اچھی انگلش بولنے والا کپتان مل گیاجو نپے تلے الفاظ میں اپنے خیالات کی ترجمانی بہت اچھی طرح کرتا ہے۔
میانوالی سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ عامر جمال نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں ہی 6 وکٹ لیکر دنیا کو بتادیا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں. عامر جمال نے تیسرے ٹیسٹ میچ میں تباہ کن باولنگ کرکے آسٹریلیا کے چھ کھلاڑی آؤٹ کرکے اس سیریز میں پہلی مرتبہ پاکستان کو پہلی انگیز میں 14 رنز کی برتر دلادی اور اس کے علاوہ ایک اور کارنامہ بھی سر انجام دیا کہ صرف 97 گیندوں پر 82 رنز بنا کر وسیم باری کا 1972 کا 14 1گیندوں پر 72 رنز بنانے کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔نویں نمبر پر آکر عامر جمال نے جو 82 رنز بنائے ہیں یہ پاکستانی ٹیم میں نیا ریکارڈ ہے عامرجمال نے اس سیریز میں سب سے زیادہ 18 وکٹ حاصل کی ہیں گویا پاکستانی ٹیم کو ایک نیا آل راونڈر مل گیا ہے۔