بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ یوں تو روزمرہ کے معاملات میں شامل ہو چکی ہے مگر بطور خاص ہمارا منگل کا دن اس لئے اذیت ناک انداز میں گزرتا ہے کہ اس روز بجلی کی معمول کی لوڈشیڈنگ کی بجائے صبح 9 سے شام چار بجے تک مسلسل بجلی بند رکھی جاتی ہے سو اس روز فکر ہوتی ہے کہ بجلی بند ہونے سے پہلے پہلے موبائل فون کی بیٹری مکمل چارج کرلی جائے کیونکہ آن لائن کام کے دوران موبائل فون کا مسلسل آن ہونا ضروری ہوتا ہے۔ چونکہ ان دنوں سوئی گیس بھی عملاً ناپید ہو چکی ہے اور کسی روز گھنٹے آدھ گھنٹے کیلئے گیس کا دستیاب ہونا کسی معجزے سے کم نظر نہیں آتا اس لئے منگل کا دن بالخصوص ناشتے کی تیاری اور فریش ہونے کی فکر بھی لگاتا ہے۔ اگر کسی روز مسلسل سات گھنٹے بجلی بند ہو اور گیس کے چولہے اور گیزر گیس کی فراہمی کو ترس رہے ہوں تو گھر میں اس سے بڑی بے بسی اور کیا ہوسکتی ہے‘ بندہ ہر کام سے گیا۔ نہ ڈھنگ کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا دستیاب ہوا اور نہ ہی اس برف جمے موسم میں یخ بستہ پانی کا منہ پر چھینٹا مارنے کی ہمت پڑی۔ بالخصوص ’’سترے بہترے‘‘ انسان کو ایسی ہمت کیسے ہو سکتی ہے اور پھر منگل کے روز کسی سستی یا غفلت کے باعث بجلی کی بندش کا آغاز ہونے سے پہلے موبائل فون کی بیٹری بھی چارج نہ ہو پائے تو بے بسی کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا کس قدر ذہنی کوفت اور اذیت کا باعث بنتا ہے‘ اس کا اندازہ ایسے مراحل سے گزرنے والے کسی بے بس انسان کی کیفیت سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ آج کالم لکھنے کیلئے یہی موضوع میرے ذہن میں کلبلاتا نظر آیا کیونکہ آج سات گھنٹے کے دورانیے والی بجلی کی بندش کا آغاز کر ہونے تک موبائل فون کی بیٹری چارج کرنے کا دل میں خیال ہی نہ آسکا اور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا آغاز ہوا تو ذہن پر بوجھ سوار ہو گیا کہ آج آن لائن آفس ورک کیسے نمٹایا جائے گا۔ اس میں ایک اذیت یہ بھی ہوتی ہے کہ بجلی بند ہوتے ہی وائی فائی کا سلسلہ بھی ساقط ہو جاتا ہے چنانچہ آن لائن کام کیلئے موبائل ڈیٹا استعمال کرنا پڑتا ہے جو موبائل فون کیلئے حاصل کئے گئے پیکیج کو غتربود کردیتا ہے۔
تو جناب! آج ذہنی اذیت کے ان مراحل سے گزرتے ہوئے اس وطن عزیز میں امن و سکون اور آزادی کے ساتھ آبرومندی کی زندگی گزارنے کی راہ میں گوناں گوں مسائل کی صورت میں حائل رکاوٹیں بھی کچوکے لگانا شروع ہو گئیں اور یہ سوچتے ہوئے دل رنج سے بھر گیا کہ ہماری اس خودمختار ایٹمی مملکت کا دگرگونی والا یہ حال کیونکر ہوا ہے‘ اس کا ذمہ دار کون ہے اور کس نے ملک کی کشتی (معیشت) کو گرداب سے نکال کر کنارے پر لگانا ہے۔ اگر ملک کے سسٹم میں سلطانء جمہور کا تصور ہی بے معنی بنا دیاگیا ہے اور حکمران اشرافیہ طبات نے اس ارض وطن کو اپنی جاگیر سمجھ کر اسکے تمام وسائل اپنی دسترس میں رکھنا اور دستبرد کرنا اپنا حق سمجھ لیا ہے تو سسٹم میں اشرافیہ طبقات کو غالب رکھنے کے گھسیڑے گئے اس تصور کی بنیاد پر راندہ درگاہ ہوئے عوام (جمہور) کو عزت و آبرو کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی بھلا کیونکر نصیب ہو پائے گا۔ سسٹم میں خرابیاں اتنی بڑھ گئی ہیں یا کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت بڑھا دی گئی ہیں کہ یہاں خلق خدا کا راج عملاً ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔ قدرت نے تو اس دھرتی کو قومی ترقی کی بنیاد بننے والے وسائل سے مالامال کیا ہے مگر ان وسائل پر خواہ مخواہ دسترس رکھنے والے ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات نے بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کی امنگوں‘ آدرشوں کے مطابق استوار کئے جانے کی متقاضی اس ارض وطن کا کیا حال کر دیا ہے۔ اور پھر المیہ یہ ہے کہ اس خانماں خرابی کی ذمہ داری قبول کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ گویا:
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے‘ بہت لا دوا نہ تھے
آپ اندازہ لگائیے کہ اسی ماہ جنوری میں ایک سال قبل بجلی کے رونما ہونیوالے بڑے بریک ڈائون کی انکوائری رپورٹ ایک سال بعد جاری ہوئی اور اس میں بڑی مچھلیوں کو بچانے کیلئے سارا ملبہ ماتحت افسران اور اہلکاروں پر ڈال دیا گیا۔ اس رپورٹ کی تیاری کے مراحل طے ہونے تک متعلقین کو یقیناً بریک ڈائون کے تمام اسباب و محرکات کا علم ہو گیا ہوگا جو اسی وقت بجلی کے ترسیلی نظام میں اصلاح احوال کے متقاضی تھے مگر آج ایک سال بعد بھی بجلی کا ترسیلی نظام دگرگوں ہے اور موسم سرما میں بھی شہریوں کو بجلی کی اعلانیہ‘ غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی اذیت اٹھانا پڑ رہی ہے تو دستیاب نہ ہونے والی بجلی کے بھی ہزاروں روپوں میں ماہانہ بل ادا کرتے ہوئے وسائل سے محروم عوام کو کس اذیت سے گزرنا پڑتا ہوگا۔ اور ایسے ہی گیس کو ترستے چولہوں کا بھی عملاً ہزاروں روپے کا بل ادا کرتے وقت مجبور عوام کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی۔ ان ادا کئے گئے یوٹیلٹی بلوں میں عائد کردہ الابلا قسم کے ٹیکسوں کے ’’جواز‘‘ پر سوچنا شروع کیا جائے تو عام آدمی بالخصوص تنخواہ دار طبقات کی ساری ماہانہ آمدنی ان ٹیکسوں کی نذر ہوتی ہی دکھائی دیتی ہے جبکہ متعینہ انکم ٹیکس انہیں الگ سے ادا کرنا ہوتا ہے۔
اسی طرح آپ وطن عزیز کے کسی بھی ادارے اور کسی بھی شعبے کے معاملات کا جائزہ لینا شروع کریں تو کرپشن اور اقربا پروری میں لتھڑے اور میرٹ و انصاف کی بھد اڑاتے اس سسٹم میں عام آدمی کے پاس مایوس ہو کر سر پیٹنے کے سوا اور کچھ نہیں بچتا۔ مہنگائی نے بے وسیلہ انسانوں کی زندگیوں کا ویسے ہی انجرپنجر ہلا دیا ہے اور جن اداروں اور محکموں نے محرومیوں اور ناانصافیوں پر شہریوں کی دادرسی کرنی ہے وہ انہیں کچلنے‘ مسلنے‘ انکی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے اور انہیں زندہ رہنے کی سزا دینے کیلئے دندناتے نظر آتے ہیں کیونکہ اس استحصالی نظام میں کسی کو اسکی بداعمالیوں اور لوٹ کھسوٹ پر پوچھنے اور جوابدہی کرنے کا تصور ہی مفقود ہو چکا ہے کیونکہ ذمہ دار ادارے اور ان سے وابستہ شخصیات خود بھی کرپشن کلچر کا حصہ بن کر عوام الناس کیلئے خونخوار بھیڑیوں کے قالب میں ڈھل چکی ہیں۔
آپ طب کے شعبے پر نظر ڈال لیں‘ کیا ادویات ساز کمپنیوں کی گرفت کرنے والا کوئی ہے؟ جنہوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران ادویات بالخصوص جان بچانے والی ادویات کے نرخ عملاً چار گنا بڑھا کر بے وسیلہ عوام کو علاج معالجہ کی سکت نہ رکھنے پر ایڑیاں رگڑ کر مرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اور پھر ڈاکٹر حضرات ان ادویات ساز کمپنیوں سے کمیشن وصول کرنے کیلئے انہی مخصوص کمپنیوں کی مہنگی ترین ادویات اپنے نسخوں میں تجویز کرکے جس بے دردی کے ساتھ شرف انسانیت کا جنازہ نکال رہے‘ کیا کسی مہذب معاشرے میں اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ آپ ای او بی آئی کے ان ضعیف پنشنروں کی حالت زار کا کبھی مشاہدہ فرمائیں جن کی پنشن کی دس ہزار روپے کی پوری رقم سے بھی دگنا خرچہ صرف ان کی معمول کی ادویات پر اٹھ رہا ہے۔ آپ نظام عدل اور اس سے منسلک پراسیکیوشن اور پولیس کے معاملات کا جائزہ لیں تو کرپشن میں لتھڑے اس سسٹم کے کبھی ہتھے نہ چڑھنے کی دعا دل سے نکلتی ہے۔ ارے جناب! ہمارے معاشرے کے ایسے کسی روشن چہرے کی کوئی جھلک کہیں نظر آتی ہے؟ جو انسانی معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے والی ہماری کسی طمانیت کا باعث بن سکے۔ پھر سوچیئے ذرا کہ عوام کو ہر قسم کے وسائل سے محروم کرکے انہیں مایوس ہو کر اس ارض وطن کو خیرباد کہنے کی راہ پر لگانے والوں کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں۔ یہ ملک خداداد ہے جس کے بانیانِ نے اسے ایک فلاحی جمہوری مملکت کی صورت میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کیلئے ایک تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کرنے کا خواب دیکھا اور اس خواب کو عملی قالب میں ڈھالا مگر اس پر مسلط حکمران اشرافیہ طبقات نے اس کا کیا حلیہ بنا دیا ہے۔ آج اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر اس پر سوچ بچار کیجئے اور اس ارض وطن کو انسانوں کے زندہ رہنے کے قابل معاشرہ بنانے کیلئے کچھ کر گزریئے۔ ورنہ ناانصافیوں سے معمور‘ کرپشن کلچر میں لتھڑے اور ’’جس کی لاٹھی اسکی بھینس‘‘ کی عملی تصور بنے کسی معاشرے کے برقرار رہنے کی گنجائش کم ہی نکلا کرتی ہے۔
کوئی ہے پوچھنے والا؟
Jan 10, 2024