ان دنوں انتخابات کا دور ہے۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی وعدوں اور نعروں کے ساتھ میدان میں ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے منشور بھی ہوتے ہیں اور شاید ہی کسی سیاسی جماعت نے منشور پر عمل بھی کیا ہو۔ جماعت اسلامی کا منشور قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ دستور پاکستان کے مطابق قرآن و سنت کی بالادستی قائم کی جائے گی۔ حضرت محمدؐ کی ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ بنیادی انسانی حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔پارلیمنٹ کے ذریعے تمام غیر اسلامی قوانین منسوخ کیے جائیں گے۔اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیلِ نو کی جائے گی اور کوئی قانون اس کی پیشگی سفارش کے بغیر پارلیمنٹ سے منظور نہیں کیا جائے گا۔ دستورِ پاکستان اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے مطابق سْودی نظامِ معیشت کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ کھاتے داروں کے ذمے کمرشل بنکوں کے سْود ختم کرنے کے لیے پالیسی بنائی جائے گی۔ خواتین کے شرعی اور قانونی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور اْن کے معاشی، سیاسی اور سمجی استحصال کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔یتیموں، معذوروں، بیواؤں اور بزرگ شہریوں کی خوراک، لباس ، چھت، علاج اور تعلیم کا بندوبست کیا جائے گا۔ حصول رزقِ حلال کی ترغیب دی جائے گی اور حرام اور ناجائز دولت کمانے اور خرچ کرنے کے تمام راستے بند کیے جائیں گے۔عوام الناس کو اسلامی عقائد، عبادات، اخلاقیات اور باہمی رواداری کی تعلیم و ترغیب دی جائے گی۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے علمائے کرام کی مشاورت سے ضابطہ اخلاق نافذ کیا جائے گا۔ دولت کی نمائش، جہیز، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں اسراف پر پابندی عائد کی جائے گی۔ گداگری کے سدباب کے لیے متبادل روزگار کا نظام بنایا جائے گا اور گداگروں کو محنت سے کمانے کے لیے ہنرمند بنایا جائے گا۔ فحاشی، عْریانی، بدکاری اور اس کی وجوہات کے خاتمے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی اور اقدامات کیے جائیں گے۔ پروٹوکول، وی آئی پی کلچر کے خاتمہ اور سادگی کو رواج دینے کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ مساجد و مدارس کے آئمہ و مدرسین کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جائے گی۔ مسجد کو کمیونٹی کا مرکز و محور بنایا جائے گا۔ نئی مساجد میں خواتین کے لیے الگ حصہ مختص کرنا ضروری ہو گا۔ غیر مسلم پاکستانی برادری کو اپنے مذہب کے مطابق تمام آزادیاں حاصل ہوں گی۔ غیر مسلم پاکستانیوں کو آئین پاکستان کے مطابق معاشرتی، معاشی، معاشی اور شہری حقوق حاصل ہوں گے۔ جمعتہ المبارک کی ہفتہ وار چھٹی بحال کی جائے گی۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق اسلام ، آئین، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ کو بالادست بنایا جائے گا۔ آئین اور پارلیمان کو عملاً بالادستی قائم کرنے کے لیے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں سنجیدہ ، بامعنی اور باوقار ماحول بنایا جائے گا۔ پارلیمانی نظام کو موروثی سیاسی خاندانوں کے مفادات اور جاگیر دارانہ سیاست سے آزاد کرایا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں متوسط اور غریب طبقات کی قیادت سامنے لائی جائے گی۔قانون سازی (Parlimentarians) کی استعداد کار بڑھانے کے لیے ’’تربیتی اکیڈمی‘‘ قائم کی جائے گی۔ قانون سازی میں نادیدہ قوتوں اور غیر حکومتی تنظیموں کا اثر و رسوخ اور مداخلت روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ تمام قومی و ریاستی اداروں کو اْن کے دائرہ کار تک محدود رکھنے اور ماورائے آئین اقدامات کی پیش بندی کی جائے گی۔
انتخابی اصلاحات
آزدانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے انتخابی نظام میں اصلاحات کی جائیں گی۔ متناسب نمائندگی کا طریق انتخاب اپنانے کے لیے قومی سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ عوام کا کوئی ایک بھی ووٹ ضائع نہ ہو اور ہر سیاسی جماعت کو حاصل شدہ ووٹوں کے تناسب سے قومی اسمبلی، سینیٹ (مجلس شوریٰ) اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی مل سکے۔ ووٹ دینا لازمی قرار دینے کے لیے قانون سازی کریں گے۔ انتخابی عمل اور انتخابات میں سرمائے اور نادیدہ قوتوں کا عمل دخل اور اثر و رسوخ ختم کیا جائے گا۔ الیکٹیبلز کی بلیک میلنگ اور ہارس ٹریڈنگ ختم کی جائے گی۔ خاندانی سیاست اور موروثیت کے خاتمہ کے لیے سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوری و انتخابی تنظیم لازمی کی جائے گی۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اہلیت، دیانت اور شہرت جانچنے کے لیے ایک آزاد، غیر جانبدار اور خودمختار کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو امیدواروں کی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق جانچ پڑتال کرے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتظامی، مالی اور عدالتی خودمختاری دی جائے گی۔ حلقہ بندیوں ، انتخابی فہرستوں، انتخابی عملے کی تربیت و تعیناتی کے لیے آئین کے مطابق واضح قواعد و ضوابط بنائے جائیں گے۔ تمام شعبوں کے باصلاحیت افراد کی اسمبلیوں میں موجودگی کے لیے سیاسی، دینی اور پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے گی۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے گی۔ اْردو کو سرکاری زبان اور بنیادی تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے گا۔ اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات اْردو اور انگریزی میں ہوں گے۔ آئین کے مطابق بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کے لیے موثر احتسابی نظام قائم کیا جائے گا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کو متوازی عدالتی نظام بنانے کے بجائے اعلیٰ عدلیہ کے ماتحت لایا جائے گا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کو متوازی عدالتی نظام بنانے کے بجائے اعلیٰ عدلیہ کے ماتحت لایا جائے گا۔ وی آئی پی کلچر اور غیر ضروری پروٹوکول کے خاتمے کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کیے جائیں گے۔پارلیمنٹ میں بیرونی دباؤ پر ہونے والی قانون سازی پر نظرثانی کی جائے گی۔ انتظامی اور مالی اختیارات کی نچلی سطح (بلدیات) تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے گا۔ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور تشدد کے سدِباب کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ماتحت عدلیہ کے اچھی کارکردگی، تجربہ اور شہرت کے حامل ججوں اور وکلاء کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بحیثیت جج مقرر کیا جائے گا۔ آئین کی تمام دفعات پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے حتمی ہوں گے اور اسے بدنیتی سے چیلنج نہ کیا جا سکے گا۔ ازخود حکم امتناعی کا طریق کار تبدیل کیا جائے گا۔
خودمختار اور مضبوط بلدیاتی ادارے
بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے آئین میں ایک نیا باب اور شیڈول شامل کیا جائے گا۔ صوبائی مالیاتی کمیشن کے ذریعے مقامی حکومتوں کو مالیاتی اختیارات منتقل کیے جائیں گے۔ بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی خودمختاری دی جائے گی۔بلدیاتی اداروں کو وفاقی اور صوبائی ترقیاتی فنڈز کی براہ راست منتقلی کو یقینی بنایا جائے گا۔ بلدیاتی اداروں کی معطلی اور بالائی حکومتوں کی مداخلت کے سدباب کامو ¿ثر انتظام کیا جائے گا۔ بلدیاتی اداروں کے تحت مقامی سطح پر مو ثر مصالحتی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
آزاد میڈیا
میڈیا اور کسی بھی شہری کی معلومات تک رسائی یقینی بنائی جائے گی۔ اسلامی اقدار کے مطابق آزادی اظہار رائے کو بنیادی انسانی حقوق تسلیم کرنے کے قانون کو موثر بنایا جائے گا۔میڈیا کو ناجائز حکومتی اور غیر حکومتی دباؤ سے آزاد رکھنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں گے۔ میڈیا میں کام کرنے والے تمام ملازمین کو بلاامتیاز تحفظ دیا جائے گا۔جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے صحافتی انجمنوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔قومی سلامتی سے متعلق حساس معاملات کے حوالے سے صحافیوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ مغربی اور بھارتی تہذیب و ثقافت کے حملوں کو روکا جائے گا۔ عریاں، فحش اور مخرب اخلاق پروگراموں، ڈراموں اور اشتہارات کی روک تھام کے لیے سیاسی و دینی جماعتوں ، میڈیا ، پیمرا، سنسر بورڈ اور وزارت اطلاعات و نشریات کی مشاورت کے ساتھ ضابطہ اخلاق بنایا جائے گا اور قوانین پر عمل درآمد کروایا جائے گا۔ نئی نسل کی نظریاتی، علمی و اخلاقی تربیت کے لیے آئی ٹی سیکٹر کے ماہرین کی مشاورت سے ’’ڈیجیٹل میڈیا پالیسی‘‘ بنائی جائے گی۔ میڈیا کو اسلامی تہذیب و ثقافت کا علمبردار بنانے کی ترغیب دی جائے گی۔سیاسی جماعتوں، ماہرین معاشیات اور تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ’’میثاقِ معیشت‘‘ تیار کیا جائے گا۔ پاکستان کا طویل المیعاد معاشی منصوبہ ’’پاکستان: وڑن 2050 ء‘‘ تیار کیا جائے گا۔ سودی معیشت اور سْودی بنکاری کا خاتمہ کیا جائے گا۔ معیشت کی بنیاد حلال آمدن اور بہترین مالی نظم و نسق پر رکھی جائے گی۔ حکومتی سطح پر تعیشات اور وی آئی پی / پروٹوکول کلچر ختم کیا جائے گا اور سادہ طرزِ حکمرانی متعارف کروایا جائے گا۔ ناجائز منافع خور مافیا ز اور کارٹیلز کا خاتمہ کیا جائے گا۔ اشیائے خوردو نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام لایا جائے گا۔ دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا اور مختلف طبقوں کے مابین غیر معمولی معاشی تفاوت ختم کیا جائے گا۔ غربت کے خاتمے کے لیے 10 کروڑ عوام سے زکوٰۃ و عشر اکٹھا کیا جائے گا جس سے ایک کروڑ غریب گھرانوں کی اندازاً اڑھائی لاکھ روپے سالانہ مدد کی جائے گی۔ عالمی بنک، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور اندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ سرکاری اہلکاروں کی بے جا مداخلت سے بچنے کے لیے ون ونڈو بزنس پراجیکٹ قائم کیا جائے گا۔ پاکستانی روپے کے استحکام اور منی لانڈرنگ و سٹہ بازی روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ سالانہ معاشی شرح نمو کو آبادی میں سالانہ اضافے سے کم از کم دو گنا کرنے کے لیے مو ¿ثر حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ اندرون و بیرون ملک سے ترسیلاتِ زر پر بنک فیس کم کی جائے گی۔ تمام بیرونی تحائف ریاست پاکستان کی ملکیت ہوں گے۔ توشہ خانے سے سرکاری تحائف کی فروخت کی ضرورت پڑنے پر مارکیٹ ریٹ پر باقاعدہ کْھلی نیلامی کی جائے گی۔ کوئی حکومتی یا سرکاری عہدیدار توشہ خانے سے سرکاری تحائف سستے داموں خرید نہیں سکے گا۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان ایکٹ پر نظرثانی کر کے ’’گورنر بنک دولت پاکستان‘‘ کو پارلیمنٹ اور حکومت کے سامنے جوابدہ بنایا جائے گا۔
قومی آمدن و ٹیکس میں اضافہ
وفاق اور صوبوں میں ٹیکس اصلاحات متعارف کروائی جائیں گی۔ جنرل سیلز ٹیکس کو 5 فیصد سے کم کیا جائے گا۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور مالدار ترین اشرافیہ سے ان کی آمدن کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ جبکہ ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جائے گی۔ بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کا منصفانہ تناسب مقرر کیا جائے گا۔ فکس ٹیکس اسکیم کے اجراء کا جائزہ لیا جائے گا اور اگر یہ قابل عمل ہوا تو اسے نافذ کیا جائے گا۔ معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے پرکشش اسکیم شروع کیا جائے گی اور ریونیو ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بیس میں منتقل کیا جائے گا۔ زرعی ٹیکس بتدریج نافذ کیاجائے گا جبکہ ای آبیانہ اور ای مالیہ سکیموں کا اجرا کیا جائے گا۔ ٹیکس افسران کے اختیارات پر نظرثانی کی جائے گی۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں 30 فیصد کمی کی جائے گی۔ غیر ضروری سرکاری اخراجات ختم کیے جائیں گے۔ سرکاری اداروں میں اسراف کا خاتمہ اور سادگی و قناعت کی روش اختیار کی جائے گی۔ اعلیٰ حکومتی عہدیداران اور ملازمین سادگی کو رواج دیں گے۔ موجدہ یا سابقہ صدور، وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء، سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ، سپریم کورٹ و ہائی کورٹس کے ججوں، اعلیٰ سول اور فوجی افسران کو قیمتی لگڑری گاڑیوں اور مفت پٹرول و بجلی وغیرہ کی سہولت ختم کی جائے گی۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں ا ور مالدار ترین اشرافیہ کو حاصل ٹیکس کی 200 ارب روپے سالانہ کی جائے گی۔ ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات پر نظرثانی کی جائے گی۔ سرکاری ملازمین کی پنشن سے بلاسود سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے سرکاری خزانے کا بوجھ کم ہو گا۔ تمام اندرونی و بیرونی قرضوں کو بتدریج ختم کیا جائے گا اور خودانحصاری پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ بیرونی و مقامی قرضوں کی جلد ادائیگی کا شیڈول اور طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ مہنگی گاڑیوں، کاسمیٹکس اور غیر ضروری تعیشاتی اشیاء کی درآمد بند کر کے قیمتی زرمبادلہ چائیں گے۔ برآمدات میں اضافے کو فروغ دیا جائے گا اور غیر ضروری درآمدات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ زرمبادلہ میں ادائیگی کی شرط پر سمندر پار پاکستانیوں کو قیمتی سرکاری قیمتی کمرشل اراضی پر کشش قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی جائے گی۔ مخصوص فصلوں ا ور صنعتی پیداواری علاقوں میں سال کے لیے ٹیکس فری انڈسٹریل زونز قائم کیے جائیں گے جہاں برآمدات ک ے لیے ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس تیار ہوں گی۔ برآمدی مقاصد کے لیے آئی ٹی، میٹ ایکسپورٹ اور زرعی ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ دیا جائے گا۔ ہم اہم صنعت کو 25 فیصد ایکسپورٹ کرنے کا قانونی طور پر پابند کیا جائے گا۔ایکسپورٹرز کو خصوصی قومی اعزازات سے نوازا جائے گا۔ سفارت کاروں کی ترقی کا انحصار ایکسپورٹ مارکیٹنگ کی بنیاد پر ہو گا۔ ایگروبیسڈ انڈسٹری ، کاٹیج انڈسٹری اور سمال و میڈیم انڈسٹریز کو فروغ دینے کے لیے مراعات کا خصوصی پیکج تیار کیا جائے گا۔ درآمد کیے جانے والے خام مال کو ملک کے اندر ہی بنانے والی انڈسٹری کو 10 سال کے لیے خصوصی ٹیکس مراعات دی جلائیں گی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو ترقیاتی منصوبوں میں حصہ دار بننے کے لیے سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔ گاڑیاں بیرونِ ملک سے منگوانے کے بجائے اپنی گاڑی تیار کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ ملازمت کی بجائے ذاتی کاروبار چلانے کی ترغیب و ترتیب دی جائے گی اور ’’چھوٹا کاروبار معاشی بہار‘‘ مہم شروع کی جائے گی۔ پاکستان سٹیل ملزم، پاکستان ریلویز اور پی آئی اے سمیت قومی اداروں کی فروخت یا نج کاری کے بجائے انھیں منافع بخش ادارے بنانے کے لیے اہل انتظامیہ کا تقرر کیا جائے گا۔ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں (IPPs ) کے ساتھ مہنگے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے گی اور قومی مفادات کے منافی معاہدے کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ بہترین مالی نظم و ضبط سے گردشی قرضوں اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے گا۔ سرکاری دفاتر کو متبادل بجلی (سولر) پر منتقل کیا جائے گا جس سے سرکاری اخراجات میں کمی آئے گی۔ سرکاری، کاروباری اور خوشی کی تقریبات دن کی روشنی میں کرنے کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ بجلی اور یس کے رائج الوقت ظالمانہ سلیب ریٹ ختم کر دئیے جائیں گے۔ غریب خاندانوں کو 300 یونٹ تک بجلی مفت کر دی جائے گی۔ لوڈشیڈنگ اور لائن لاسز سمیت بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے گا اور پہلے نیشنل گرڈ میں بجلی جمع کرنے کا طریق کار تبدیل کریں گے۔ توانائی کے سستے متبادل ذرائع مثلاً کوڑا کرکٹ سے تیاری اختیار کیے جائیں گے۔ درآمدی ایندھن کی بجائے قدرتی اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دیا جائے گا۔ بھاشا اور اکھوڑی ڈیم سمیت تمام ضروری چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے گا۔ دریاؤں اور نہروں کے بہاؤ پر بجلی تیار کریں گے۔ ہائیڈرو پاور، شمسی توانائی کے پینل اور ونڈ ٹربائن کی تیاری میں خودکفالت حاصل کرنے کے لیے صنعت کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن میں اپنے حصے کا کام جلد مکمل کریں گے۔