بین الاقوامی فوجداری عدالت میں غزہ کے صحافیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم کی تحقیقات شروع

بین الاقوامی فوجداری عدالت نے منگل کے روز اس امر کی تصدیق کی ہے کہ عدالت غزہ میں صحافیوں کے خلاف روا رکھے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کر رہی ہے۔ واضح رہے اسرائیل نے سات اکتوبر سے غزہ میں جنگ شروع کر رکھی ہے اور یہ ابھی تک جاری اسرائیل کی طویل ترین جنگ ہے۔نیویارک میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم ادارے ' کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' کے مطابق اب تک بمباری اور اسرائیلی ٹینکوں کی گولہ باری سے 70 کے قریب صحافی ہلاک کیے گئے ہیں۔ صحافیوں کی ان تین ماہ کے دوران کل ہلاکتوں کی تعداد 79 ہے۔جبکہ عالمی سطح پر میڈیا کارکنوں کے حقوق کے لیے سرگرم ادارے ' رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز ' نے ماہ نومبر میں اسرائیلی جنگ میں صحافیوں کی ہلاکتوں کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں ایک درخواست دائر کر دی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا صحافیوں کے خلاف جاری جنگی جرائم کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اب پیر کے روز اس بین لاقوامی عدالت کے پراسیکیوٹر نے میٖڈیا کارکنوں کے لیے کام کرنے والی اس تنظم کو یقین دہانی کرائی ہے کہ دائرہ کردہ درخواست کے تحت ' صحافیوں کے جرائم کے واقعات پر تحقیقات کی جاری ہیں۔بین الاقوامی عدالت کا اس بارے میں کہنا ہے' ریاست فلسطین کی صورت حال کے بارے میں دائر کردہ استغاثے کے تناظر میں عدالت کو تشویش ہے۔' خیال رہے عدالت کے مطابق صحافیوں کے خلاف یہ جرائم 13 جون 2014 سے عدالتی دائرہ اختیار اور نگاہ میں ہیں۔غزہ میں صحافیوں کی تازہ ہلاکت کا واقعہ اسی ہفتے کے دوران پیش آیا ہے ۔ جس میں الجزیرہ سے وابستہ دو صحافیوں اسرائیلی بمباری کا اس وقت نشانہ بنایا گیا جب غزہ میں اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران اپنی گاڑی پر جا رہے تھے۔ اس گاڑی پر سوار تیسرا صحافی زخمی ہوا جبکہ دو کی ہلاک ہو گئی۔اتوار کے پیش آنے والے اس واقعے میں دونوں صحافی حمزہ وائل الدحدوح اور مصطفیٰ ابو ثریا الجزیرہ ٹی وی سے وابستہ تھے۔ الجزیرہ نے اس بمباری کو اسرائیل کی صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ قرار دیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی فوج روایتی انداز کے بیان میں کہہ دیا کہ اس نے ایک دہشت گرد کو نشانہ بنایا تھا۔دوسری جانب اقوام متحدہ میں انسانی حقوق سے متعلق دفتر نے کہا ' وہ غزہ میں صحافیوں کی ہلاکتوں پر بہت فکر مند ہے۔' غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب سات اکتوبر سے اب تک صرف غزہ میں 23210 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن