مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے گرینڈ الائنس کی شکل میں سیاست کا ایک نیا ڈول ڈال دیا ہے۔ میاں صاحب جب سے پاکستان واپس آئے ہیں ان کا سیاسی اونٹ کسی خاص کروٹ بیٹھتے نظر نہیں آرہا۔ پاکستان واپس آکر انہوں نے سب سے زیادہ غصہ پرویز مشرف پر نکالا ایسا ان کا حق بھی بنتا تھا یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کا سیاسی نزلہ سب سے زیادہ چوہدری برادران پر گرااور انہوں نے اپنی جماعت کے لئے انہیں سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیااس حوالے سے بھی میاں صاحب کا غصہ کسی حد تک بجا سمجھا جائے گا کیونکہ چوہدری برادران بھی لیلہ اقتدار کی زلف کے اسیر ہوکر مشرف کو وردی سمیت دس مرتبہ صدر منتخب کرنے کے دعوے کرتے رہے ہیں اور آج مشرف سے کنی کترا رہے ہیں۔ جس وقت میاں صاحب سعودی عرب میں تھے تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ جب میاں صاحب وطن واپس آئیں گے اس وقت یہی چوہدری برادران سب سے آگے ائر پورٹ پر میاں صاحب کے لئے ہاتھوں میں ہار لئے کھڑے ہوں گے ایسا ہو بھی جاتا لیکن چوہدری برادران کی قسمت نے یاوری نہیں کی کیونکہ میاں صاحب وقت سے پہلے ہی گھر واپس آگئے ۔ اب میاں صاحب تو ائر پورٹ پر اتر چکے تھے لیکن جنرل مشرف صدر کی حیثیت سے بدستور ایوان صدر میں موجود تھے اس لئے چوہدری برادران کوائر پورٹ کا راستہ ہی سجھائی نہیں دیا۔
چوہدری برادران کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم بھی مشرف کے دور اقتدار میں وردی کے سائے میں رہی۔ یہ اس وقت کا گرینڈ الائینس تھا جو امریکی مفادات کی بنیاد پر کھڑا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے جب میاں صاحب نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران کراچی میں ہونے والے والے بارہ مئی کے واقعات کا تذکرہ کرکے قوم کے زخم پھر سے ہرے کردیئے تھے لیکن اچانک ہی اسی جماعت یعنی ایم کیو ایم کے ساتھ کچھ تحفظات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اتحاد کرڈالا۔ ممکن ہے کہ میاں صاحب نے ایم کیو ایم کے ٹریک ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ جلد بازی کی ہو کہ اس سے پہلے ایم کیو ایم پرانی تنخواہ پر پھر واپس پلٹے اسے اپوزیشن کی زنجیر ڈال دی جائے۔لیکن انہیں شاہد اس بات کا علم نہیں کہ جو کچھ ایم کیو ایم کے ساتھ پنجاب میں ہوا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ مسلم لیگ کے ساتھ کراچی اور حیدرآباد میں کرے گی۔۔۔صرف چند ماہ اور انتظار کریں۔۔میاں صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ قاف لیگ اور ایم کیو ایم جنرل مشرف کے دو بازو سیاست تھے میاں صاحب نے اپنے صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک بازو کو تو مروڑ دیا لیکن سندھ سے تعلق رکھنے والے دوسرے بازو کو گلے کا ہار بنالیا!!
میاں صاحب اگر دور اندیش ہوتے تو واپس آکر پہلے اپنی جماعت کو منظم کرتے لیکن انہوں نے جمہوریت کے نام پرپیپلز پارٹی کے ایک ایسے گروہ کا پشتی بان بننا منظور کیا جس کا سیاسی مستقبل نہ ہونے کے برابر ہے۔زرداری صاحب نے ایسے ہی نہیں میاں صاحب کو مولوی نواز شریف کہایہ انہیں بھڑکانے کے لئے تھا۔ امریکہ کی مکمل حمایت اور اسٹیبلشمنٹ کا کاندھا مل جانے کے بعد زرداری صاحب اب یہ تاثر ختم کرنا چاہتے تھے کہ ان کے اقتدار کو میاں صاحب کی شکل میں فرینڈلی اپوزیشن کی مدد حاصل ہے۔کشمیر کے انتخابات نے اس تاثر کو مزید تقویت دے دی۔اب ہوگا کیا؟ میاں صاحب کے پہلے دور میں کراچی کی جس جماعت کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تھا اب کیا وہ اسی جماعت کا اتحادی کے طور پر دفاع بھی کریں گے؟کیا اس سے کہیں بہتر نہ تھا کہ میاں صاحب اپنے ہی الگ ہوئے بازو کو دوبارہ جوڑ لیتے؟ جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر ان کی حکومت تھی اور کچھ نہیں تو اپنی جماعت میں ریفرنڈم کروا کر کارکنان کی مرضی کو اولیت دیتے اور اگر فیصلہ چوہدری برادران کے خلاف آتا تو بے شک انہیں نکال کر باقیوں کو تسلیم کیا جاسکتا تھا اور یوں یہاں سے وہ ملک بھر میں مسلم لیگ کو متحد کرکے قوم کو نئی امید کی کرن دکھا سکتے تھے۔ جبکہ دوسری جانب وطن عزیز میں پیپلز پارٹی کے نام پر برسراقتدار گروپ بی جمالو کردار ادا کر رہا ہے اس نے چوہدری برادران کو مونس الٰہی کی جھنڈی دکھا کر اپنے پیچھے لگایا اور انہیں نہ لاہور کا چھوڑا نہ اسلام آباد کا۔ اسی طرح یہ گروپ اے این پی کو ایم کیو ایم سے لڑا کر کراچی میںاپنے پیر مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ایک طرف ایوان صدر سابق گورنر سندھ عشرت العباد کو دوبارہ گورنر شپ قبول کرنے کا مطالبہ کرکے ایم کیو ایم کو بڑے رخنے سے دوچار کرنے کی کوشش میں ہے۔ میاں صاحب اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ کراچی میں خانہ جنگی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے قوم کی توجہ ہٹانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ ہم کہتے چلے آرہے ہیں کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاءسے پہلے وطن عزیز میں بڑی آزمائشیں ٹوٹ پڑیں گی اور اب ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اگست اور ستمبر ایک ایسی تبدیلی کا سبب بھی بن سکتے ہیںجو وطن عزیز کی تاریخ میں کسی نے سوچی بھی نہ۔۔۔