محترمہ فاطمہ جناحؒ کی انتخابی مہم کو روزنامہ ”نوائے وقت“ نے اس قدر موثر اور دلیرانہ انداز میں پیش کیا کہ مادرِملتؒ کا پیغام اور منشور ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا۔روزنامہ ”نوائے وقت“ نہ صرف مادرِملتؒ کی صفات کو زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچا رہا تھا بلکہ ان بے بنیاد الزامات کا بھی مدلل جواب دے رہا تھا جو حکمرانوں اور انکے کاسہ لیسوں کی جانب سے مادرِملتؒ پر لگائے جارہے تھے۔
نوائے وقت کا کردار
فوجی ڈکٹیٹر کی جانب سے مادرِملتؒ پر جو سب سے خطرناک حملہ کیا گیا وہ تھا اسلامی مملکت میں ایک خاتون کا سربراہ بننا۔ اس کا اثر زائل کرنے کیلئے روزنامہ ”نوائے وقت“ نے اپنے صفحات پر بے شمار علمائے کرام کے فتوے شائع کیے جنہوں نے اپنے دلائل و براہین سے ثابت کیا کہ عورت ملک کی سربراہ بن سکتی ہے۔ علمائے عظام کے فتوﺅں کے علاوہ روزنامہ ”نوائے وقت“ نے ادارتی صفحات پرصاحب الرائے شخصیتوں کے مضامین اور خبروں کے صفحات پر بیانات بھی چھاپے جن میں عورت کی حکمرانی جائز قرار دی گئی تھی۔ غرض یہ کہ انتہائی طاقت ورسرکاری پروپیگنڈا مشینر ی کے مقابلے میں رونامہ ”نوائے وقت“ نے اپنی خبروں‘ اداریوں‘ کالموں‘ مضامین اور جلسوں کی رپورٹوں اور جھلکیوں کے ذریعے ایوان اقتدار میں کھلبلی مچادی۔
روزنامہ ”نوائے وقت“ کے اس دور کے چند اداریوں کے اقتباسات ملا خطہ کیجئے۔
15اکتوبر 1964ءکو ”نوائے وقت“ کا اداریہ تھا۔
” مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے میدان انتخاب میں اتر نے سے ملکی سیاست میں یک بیک ایک جاندار اور خوشگوار تبدیلی ہوئی ہے۔ انتخابی معرکہ یک طرفہ اور بے رنگ نہیں رہا۔ بلکہ اسے دو مضبوط اور تقریباً مساوی طاقت کے فریقین کے درمیان ایسی نبردآزمائی کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جس میں ہر فریق اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے پر مجبور ہوجائے گا۔ملکی سیاست میں یہ ایک ایسی خوشگوار تبدیلی ہے جس پر ہر جمہوریت پسند شخص کو دلی اطمینان ظاہر کرنا چاہیے۔ صدر ایوب نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز پشاور سے کیا ہے۔ وہاں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جہاں انہوں نے اپنی صوابدید کے مطابق ملک کے حالات اور ثقافتوں کا تجزیہ کیا ہے وہاں انہوں نے دو ٹوک اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ عوام ہی اپنی قسمت کا آخری فیصلہ کرنے کے مجاز و مختار ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے حاکم اور مقتدر ترین فرد کی طرف سے اس حقیقت کا برملا اعتراف کہ عوام ہی اپنی قسمت کا آخری فیصلہ کرنے کے مجاز و مختار ہیں ایک ایسی بات ہے جس کا واشگاف اظہار اس سے پہلے اس طرح کبھی نہیں ہوا تھا۔ ہماری اس گزارش سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ہم یہ عرض کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ سلطانی جمہور کا اس طرح علم بلند ہونے میں اپوزیشن کی اس مضبوطی کا سب سے زیادہ حصّہ ہے جو مادرِملتؒ کے میدان انتخاب میں اترنے سے اپوزیشن کونصیب ہوئی ہے۔ حکومتی پارٹی نے اس مضبوطی کو اپنے لئے چیلنج سمجھ لیا ہے اور اس کا اظہار ملک بھر میں ہونے لگا ہے۔ اب اپوزیشن کو بھی حسن فکر‘ حسن کردار اور حسن تنظیم سے واضح کردینا چاہیے کہ وہ اس مضبوطی کی اہل اور مستحق ہے۔اپوزیشن کی طرف سے یہ وضاحت جس قدر جاندار اور موثر ہوگی پاکستان میں سلطانی جمہور کا پرچم اسی قدر شان دلآویزی سے اور بلندی پر لہرائے گا۔“
28اکتوبر 1964 کا اداریہ تھا۔
”عورت کی سربراہی سے متعلق مصر کے علما کا جو فتوی درآمد کیا گیا ہے تو اب دیکھنا ہے کہ جن علمائے مصر کی زبانیں کشمیر کے متعلق گنگ رہیں اور اب تک ہیں۔ جن مفتیان قاہرہ کی آنکھوں سے بھارت میں مسلمانوں کا خون مانند آب ارزاں ہونے پر ایک آنسو تک نہ ٹپکا۔ قبرص کے جلاد و سفاک پادری صدر میکاریوس نے ترک اقلیت پر جو ظلم کیا ہے وہ اور حاکمان مصر نے جس طرح مظلوم مسلمانوں کی جگہ ظالم قبرصیوں کی ہمت افزائی کی ہے اس میں جن مفتیان الازہر نے اعلائے کلمتہ الحق کافریضہ ادانہیں کیا ان کے فتوے پاکستانی سیاست میں اس زندگی بخش اور انقلاب آفرین لہر کو روکنے میں کیا جادو جگاتے ہیں جو مادر ملتؒ کے میدان سیاست میں آنے پر سورج کی روشنی کی طرح ہر جہت کو منور کر گئی ہے۔ ہر جمہوریت پسند اور روشن ضمیر شخص کا دل اس بات کی گواہی دے گا کہ مادر ملتؒ کی طرف سے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے فیصلے اور اعلان کے فوراً بعد سر اٹھا کے نہ چلنے کی رسم قصہ ماضی بن گئی ہے۔“
یکم نومبر 1964 کااداریہ تھا:
”حکومت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کاوعدہ کر چکی ہے اور ہر حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی انتخابات میںسرکاری ملازمین کو استعمال کرنےکا الزام تسلیم کرنے سے انکار کرے گی لیکن ہم حکومت وقت ،افسران کرام اور دوسرے سرکاری ملازمین کویہ یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ موجودہ انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناحؒ اور ایوب میں مقابلے کی وجہ سے ساری دنیا کی نگاہیں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ خود پاکستانی عوام بھی آنکھیں اور کان رکھتے ہیں۔ وہ سب کچھ دیکھ بھی رہے ہیںاور سن بھی رہے ہیں ۔ صدر ایوب اور ان کے سیاسی مبلغ موجودہ صدارتی معرکے کو بجا طور پر حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ قراردے رہے ہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہ ہوئے اور جیتنے کیلئے سرکاری مشینری کو واقعی استعمال کیاگیا تو پاکستان اور پاکستان سے باہر ا س کارنامے کی کیا وقعت باقی رہ جائے گی۔ سرکاری افسر اور سرکاری ملازمین خوف ‘لالچ اور دباﺅ کے باوجود موجودہ انتخابات میں غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دینے کی کوشش کریں بصورتِ دیگر وہ ملک کی ساکھ خراب کرنے کے ذمہ دارہوں گے ۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک روز انہیں حاکموں کے حاکم کے سامنے بھی حاضرہونا ہے۔ وہ عوام کے محاسبے سے بے شک بے نیاز رہیں لیکن روز حساب کو یاد رکھیں اور محترمہ فاطمہ جناحؒ اور صدر ایوب کی ذات ہائے گرامی سے بے پرواہ ہو کر ہر ممکن حد تک غیر جانب داری سے کام لیں“۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاں پیرانہ سالی کے باوجود مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے فوجی آمریت کے قلعہ میں دراڑیں ڈالنے میں اہم کردار اداکیاوہاں ”نوائے وقت“ نے جناب مجید نظامی کی قیادت میں مادرِ ملتؒ کی جدوجہد کی صحیح طور پر عکاسی کر کے پاکستان کی سیاست اور صحافت میں ایک روشن مثال قائم کی۔ علامہ اقبالؒ ‘قائدِاعظمؒ اور تحریک پاکستان کے افکار و نظریات اور مقاصدکی تکمیل کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی بحالی اور خاص طور پر مادرِ ملتؒ کی جدوجہد کے حوالے سے جمہوریت کی اعلیٰ اقدار کو فرو غ دینے میں ”نوائے وقت“ کا نام ایک مینارئہ نور کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔(ختم شد)