طاہرالقادری نے عندیہ دیا ہے کہ وہ عنقریب ’’یوم انقلاب‘‘ کا اعلان کرنے والے ہیں جب کہ عمران خان نے 14 اگست کو ’’لانگ مارچ‘‘ کا طبل بجا دیا ہے۔ چودھری برادران طاہرالقادری کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں تو شیخ رشید کو دونوں طرف ’’آرپار‘‘ دیکھا جا سکتا ہے اور یوں وہ دونوں طرف سے ’’رش‘‘ لے رہے ہیں۔
ویسے تو شیخ صاحب مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی ’’کھلی ڈھلی‘‘ گفتگو کی بابت عوام میں اچھے خاصے مقبول ہو چکے ہیں۔ تاہم یہ بنیادی سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ کیا طاہر القادری اور عمران خان اپنی ان متوقع ’’کاوشوں‘‘ کے ذریعے اس ’’نظام بد‘‘ میں کوئی جوہری تبدیلی لا پائیں گے؟ یا یہ دونوں بھی ’’سٹیٹس کو‘‘ کا شکار ہو کر رہ جائیں گے اگرچہ دوسرے سیاست دانوں کی طرح ان دونوں کو بھی اپنی ’’سیاست‘‘ کرنے، اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کرنے کی پوری آزادی ہونا چاہئے لیکن عوام ان ہر دو حضرات کی ’’پیش قدمی‘‘ کے حوالے سے شدید قسم کے ’’تحفظات‘‘ درپیش ہیں۔ عمران خان کے بارے میں تو لوگوں کی ’’جچی تلی‘‘ رائے ہے کہ وہ صحیح وقت پر غلط اور غلط وقت پر ’’مزید‘‘ غلط فیصلے کرتے ہیں جب کہ طاہرالقادری اپنے چاہنے اور ماننے والوں کو ’’بیچ ’’منجدھار‘‘ چھوڑ جانے کا ’’شہرہ‘‘ رکھتے ہیں۔ عوام سڑکوں اور میدانوں میں ان کی ’’کال‘‘ کے منتظر ہوتے ہیں جب کہ موصوف خود ’’گوشہ عافیت‘‘ میں پناہ گزین ہو چکے ہوتے ہیں۔ ’’انقلاب‘‘ کے ضمن میں عرض ہے کہ یہ اپنے معنی اور تفہیم کے حوالے سے وسیع و عریض پس منظر رکھنے والا تصور ہے اور اس کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لئے بنیادی انفراسٹرکچر اور عوام کی مخصوص ذہنی اور نفسیاتی تربیت کی اشد ضرورت درکار ہوتی ہے جو کہ فی الوقت ہمارے ہاں دستیاب نہیں ہے لہٰذا ایک حقیقی اور کلی انقلاب کا برپا ہونا تو شاید ابھی ایک خواب کی طرح لگتا ہے تاہم عوام الناس کا ماننا ہے کہ اگر ہمارے اس موجودہ فرسودہ پیوست زدہ اور سفاکانہ نظام میں چند بنیادی جوہری تبدیلیاں ہی لائی جا سکیں تو فی الحال اسی پر ’’اکتفا‘‘ کیا جا سکتا ہے، اس لئے کہ موجودہ نام نہاد اور رسوائے زمانہ ’’جمہوریت‘‘ سے نہ تو جمہور کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اہل جمہور کا، بلکہ فسطائیت اور موروثیت پر مبنی اس نظام بد نے جمہور اور اہل جمہور کو انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ طریقے سے اپنے ’’پنجۂ استبداد‘‘ میں جکڑ رکھا ہے۔ مجبور لاچار اور نڈھال عوام کوشدید ترین معاشی، سماجی، سیاسی اور مذہبی ناانصافیوں اور ناہمواریوں کا سامنا ہے۔ سماج، معاش، سیاست اور مذہب کے نام نہاد ٹھیکے داروں اور اجارہ داروں نے لوگوں کا جینا محال کر رکھا ہے۔ پیداواری ذرائع پر چند بدقماش افراد قابض ہیں جب کہ دولت، طاقت اور اختیار مخصوص کالے ہاتھوں تک مرتکز ہو چکے ہیں عام آدمی اپنے بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے سعی لاحاصل میں مبتلا نظر آتا ہے۔
اب سوال یہ کہ کیا طاہر القادری اور عمران خان کو ان بنیادی حقائق اور نازک امور کا پوری طرح ’’ادراک‘‘ ہے اور کیا وہ اس مقصد عظیم کے واسطے ’’بروئے کار‘‘ آ سکتے ہیں اور اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو کیا انہوں نے اس ’’کارخیر‘‘کے لئے کوئی تیاری اور ہوم ورک کر رکھا ہے اور کیا وہ عوام کو ان کے خوابوں کی تعبیر اور آدرشوں کی تصویر دکھا پائیں گے اور اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو وہ الگ الگ ’’بڑھک بازی‘‘ کرنے کی بجائے مشترکہ جدوجہد کے ذریعے اس استحصالی اور ظالمانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں ایک دوسرے کے ممدومعاون کیوں نہیں ہو سکتے؟ کیا ان کی اپنی ’’انائیں‘‘ اس راستے میں حائل ہیں یا وہ ایک دوسرے کی ’’لیڈری‘‘ سے خائف ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ لوگوں کو اس فسطائی اور موروثی نظام بد سے چھٹکارا دلا پائیں گے یا پھر وہ بھی اپنی اپنی ’’وراثت‘‘ کو عوام کے تھکے ماندے نڈھال اور ہانپتے کانپتے کاندھوں پر سوار کروانے کے درپے ہوں گے؟
طاہرالقادری، عمران خان اور عوامی ’’تحفظات‘‘
Jul 10, 2014