اسلام آباد (ثناء نیوز) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ موجودہ دور میں لوگوں کی عمریں حضرت نوح علیہ السلام کے دور جتنی تو نہیں ہیں کہ مقدمات صدیوں تک چلیں۔ آئین کا آرٹیکل 37(B) کہتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائے گی لیکن صورتحال ان لوگوں سے پوچھیں جو لوگ 21 سال سے جوتے گھساتے پھر رہے ہیں کیا اس عمل کو فوری انصاف کہتے ہیں کہ 21 سال میں بھی مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہو سکا اور درخواست گزار خاتون انتقال کر گئیں اور اب بیٹے نے مقدمہ لڑنے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے یہ ریمارکس ایک خاتون صابرہ بی بی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیئے۔عدالت نے مرحومہ کے بیٹے کو مقدمہ آگے بڑھانے کی اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ ترمیم شدہ اپیل 7 روز میں دائر کریں جبکہ مقدمہ کی سماعت بھی سات روز کے لیے ملتوی کردی گئی۔ دوران سماعت ایک فاضل وکیل نے تجویز دی کہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط(رولز) میں ترمیم کرنا ہو گی جس پر جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس ضمن میں تجویز دی ہے لیکن بار کو اس حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اتنے لمبے عرصہ تک مقدمات کے التواء کا تدارک کیا جا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اتنا بڑا المیہ نہ ہوتو یہ واقعی ہنسنے کی بات ہے۔