جامعہ پنجاب کی کھلاڑیوں نے ایک خط کے ذریعے وزیراعلی پنجاب کو شکایت کی ہے کہ انہیں ممنوعہ ادویات کے استعمال پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چند کھلاڑیوں نے پنجاب یونیورسٹی کی ڈائریکٹر سپورٹس شمسہ ہاشمی اور دیگر عہدیداروں پر الزام لگایا ہے کہ وہ خاتون کھلاڑیوں کوممنوعہ ادویات اور غیر اخلاقی کام کرنے پر مجبور کرتی تھیں۔ اس خبر کے بعد ہلچل پیدا ہونی تھی، وہ ہوئی، ایڈیشنل ڈائریکٹر سپورٹس شمسہ ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس میں الزامات کی تردید کی جبکہ الزام لگانے والی کھلاڑیوں نے پریس کانفرنس میں انصاف نہ ملنے پر وزیراعلی ہاﺅس کے سامنے خود سوزی کی دھمکی دے دی ہے۔ دیکھا جائے تو معاملہ خاصا سنجیدہ اور یونیورسٹی کی سطح پر ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ہمارے اتھلیٹس میں یہ وبا عام ہے۔ ماضی میں اس غیرقانونی کام میں ملوث اور قوت بخش ادویات کے استعمال کی وجہ سے کئی کھلاڑیوں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیسٹ کرکٹر شعیب اختر، محمد آصف اور عبدالرحمن اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بھی بدنامی کا باعث بن چکے ہیں۔ بیرونی دنیا میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے کئی نامور اتھلیٹ اپنا کیریئر ممنوعہ ادویات کی وجہ سے داﺅ پر لگا چکے ہیں۔ یہ معاملہ بھی سنجیدہ اور حساس ہے اب دو طالبات فوزیہ پروین اور زنیرہ لیاقت نے تحریری درخواست وائس چانسلر کو جمع کروا دی ہے اور اس تنازع سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے نام کو غلط استعمال کیا گیا اور دستخط بھی جعلی تھے۔ اس عمل کے بعد کہانی نے نیا موڑ لیا ہے۔ دیکھتے ہیں آئندہ کیا ہوتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں سب سے اہم اور نازک معاملہ خواتین کھلاڑیوں کا ہے جو بے پناہ مشکلات اور مخالفتوں کا سامنے کرنے کے بعد سپورٹس میں قسمت آزمائی کرتی ہیں، کیا ایسے واقعات کے بعد لڑکیوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی، کیا ایسے واقعات کے بعد والدین آسانی سے اپنی بچیوں کو کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے اور انہیں اس شعبہ میں آنے کی اجازت دے سکیں گے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں سپورٹس میڈیسن کے ماہر افراد اور اچھی شہرت کے حامل غیر متنازعہ افراد سے انکوائری کروائی جائے اور اس واقعے میں شامل تمام ظاہری و پس پردہ کرداروں کو بے نقاب کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ پاکستان میں لڑکیوں کے کھیلوں میں مستقبل کو محفوظ بنانے اور والدین کے اعتماد کی بحالی کے لئے ضروری ہے۔ لڑکیوں کے ڈوب ٹیسٹ بیرون ملک سے کروانا پڑیں تو اس سلسلہ میں کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کھیل دوست شخصیت ہیں، نوجوانوں کے مستقبل کے محافظ ہیں، دردمند ہیں، اقبال کے شاہین کی سی فکر رکھتے ہیں۔ انہیں اس معاملے پر روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لینا ہو گا۔ ہو سکے تو جامعہ پنجاب کے چانسلر گورنر پنجاب بھی ایمانداری کے ساتھ اپنا کردارادا کریں اور اس معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لئے جلد از جلد انکوائری کروائیں۔ جامعہ پنجاب تاریخی حیثیت کا حامل تعلیمی ادارہ ہے اور اس کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے یونیورسٹی میں کھلاڑیوں کے لئے سہولیات اور وظائف میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہوئے سپورٹس کلچر کی بحالی کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم ایسے واقعات کی روک تھام بھی ضروری ہے۔ شرپسند عناصر اپنے مقاصد کے لئے کھلاڑیوں کو استعمال کرتے رہے ہیں ہو سکتا ہے حالیہ تنازع میں بھی کھلاڑی استعمال ہوئے ہوں۔ کیا معصوم کھلاڑیوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے خفیہ مقاصد حاصل کرنے والے کسی رعایت کے مستحق ہیں یہ سوال آپ کے لئے چھوڑے جا رہا ہوں۔ اصل مسئلہ جامعہ پنجاب کے تقدس کا ہے جو حالیہ تنازع کی وجہ سے بری طرح پامال ہوا ہے۔ یونیورسٹی کی عزت اور وقار پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں ہونا چاہئے اور اس سلسلہ میں کسی سے کوئی رعایت کسی بھی وجہ سے نہیں ہونی چاہئے۔