نوائے وقت کے بانی حمید نظامی نے قائداعظم کو سپورٹ کیا۔ نوائے وقت کے معمار مجید نظامی نے مادر ملت کو سپورٹ کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب مجید نظامی نے دیا۔ جنرل ایوب کے خلاف انتخابی مہم کی قیادت مادر ملت کیلئے مجید نظامی نے کی۔ جنرل ایوب مادر ملت کے حق میں اپنی ’’اقتداری ضد‘‘ سے دستبردار ہو جانا چاہئے تھا یہ ہوتا تو وہ تاریخ میں سرخرو ہوتا۔ مادر ملت کو دھاندلی سے ہرا دیا گیا۔ یہ کام مغربی پاکستان میں ہوا اور پھر اب تک ہو رہا ہے؟ مشرقی پاکستان میں مادر ملت جیت گئی تھیں۔ ان کی مصنوعی شکست کے بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ مادر ملت پاکستان کی صدر ہوتیں تو کبھی بنگلہ دیش نہ بنتا۔ پاکستان کی تاریخ ہی مختلف ہوتی۔
کتنا ظلم ہے کہ آدھے پاکستان (مغربی پاکستان) کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کہا اور خود صدر پاکستان بن بیٹھا۔ اس کا نام مغربی پاکستان رہتا تو یہ امید تو رہتی کہ کبھی یہ پورا پاکستان بن جائے گا۔ حتمی بات یا میری خواہش ناتمام یہ کہ قائداعظم کے بعد مادر ملت کو پاکستان کا گورنر جنرل بنایا جاتا تو پھر جنرل ایوب کیا کرتا۔ کسی کو جمہوری حکومت توڑنے کی جرأت نہ ہوتی۔ ایوب خان کیلئے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اسے کسی طرح کی پروموشن نہ دی جائے۔ اسے کوئی اہم منصب نہ دیا جائے مگر لیاقت علی خان نے اسے سب کچھ دیا۔ تو پھر جنرل ایوب نے کیا کچھ کیا۔
جنرل ایوب صدر ایوب نہ بنتا تو پھر بھی تاریخ پاکستان کے ساتھ اتنی توہین نہ کرتی۔ کاش وہ وہی کچھ کرتا جو سپہ سالار کو کرنا چاہئے تھا۔ میں نے محبوب سپہ سالار جنرل راحیل شریف کیلئے کہا ہے کہ آپ براہ راست سیاست میں نہ آؤ مگر سیاست کو تو راہ راست پر لاؤ۔
جنرل ایوب کی فوجی مداخلت سے پہلے مسلم لیگی قیادت اور سیاست نے حکومت کو حکمت سے الگ کر دیا۔ مسلم لیگ کو خراب کیا ملک و قوم کو خراب تر کر دیا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے کہا کہ میں ہفتے میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ سیاسی اور نام نہاد جمہوری حکومتیں؟
جنرل ایوب اگر انہونی نہ کرتا تو آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جاتا۔ استحکام بھی آ جاتا۔ بار بار کے مارشل لا نے سیاست کو غیر سیاسی بنا دیا۔ باسی حکمرانوں اور فوجی حکمرانوں نے ایک جیسی غلطیاں کیں۔ جنرل ایوب نے صدر ایوب بن کے سیاست اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ مادر ملت صدر ایوب کے خلاف نکلیں۔ جمہوریت کے چیمپیئن یاد رکھیں کہ یہ جمہوریت بچانے کی سب سے بڑی کوشش تھی۔ کاش صدر ایوب اس لمحے کی نزاکت کو سمجھتا اور اقتدار کے نشے میں مبتلا نہ ہو جاتا۔ سب کچھ مادر ملت کے حوالے کر دیتا تو پاکستان کا نصیب سنور جاتا۔
قائداعظم کی بہن کے خلاف انتخاب لڑنا ہی ایسا جرم ہے جو ظلم کے برابر ہے اور پھر مادر ملت کو دھاندلی سے ہرانا تو انتہا ہے۔ اس زیادتی‘ ناانصافی اور غیر جمہوری رویے کے خلاف پاکستان کی خواتین و حضرات کو سڑکوں پر آنا چاہئے تھا۔ ایسی تحریک چلتی جو قیام پاکستان کیلئے چلی تھی۔ مادر ملت پاکستانی عورتوں کیلئے رول ماڈل ہیں۔ جمہوریت پسندوں کیلئے بھی شمع محفل ہیں مگر اب تو محفل اجڑ رہی ہے۔
مادر ملت قوم سے مایوس ہوئی۔ آج پوری قوم مایوس ہے آج بھی مادر ملت کو یاد کیا جائے ان کے نقش قدم پر چلا جائے اور غیر جمہوری حکومتوں کے خلاف تحریک چلے تو پاکستان بچ سکتا ہے۔ پاکستان قائم رہے گا مگر ہمیں اپنی کوتاہیوں کی سزا ضرور ملے گی‘ ملتی رہے گی اور مل رہی ہے۔
مادر ملت جس طرح ہمارے درمیان سے چلی گئی۔ یہ بہت بڑا احتجاج ہے۔ جو آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے مگر نجانے ہم کہاں دیکھ رہے ہیں۔ان کی وفات اتنے اسرار سے بھری ہوئی ہے۔ رات کو وہ اچھی بھلی سوئیں۔ صبح کو وہ ہمیشہ کیلئے سو گئیں۔ اس راز سے پردہ کون اٹھائے گا۔ آج بھی مادر ملت کیلئے پورے پاکستان میں کہیں کوئی تقریب نہ ہوئی۔ ان کی برسی یونہی گزر گئی۔ یہ زندہ قوموں کے طریقے نہیں ہوتے۔
صرف نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں شاہد رشید نے مادر ملت کیلئے قرآن خوانی کرائی اور ایک چھوٹی سی شاندار تقریب بھی ہوئی۔ محبوب و مرشد مجید نظامی ہمیشہ مادر ملت کیلئے تقریب کرتے تھے۔ تب بھی اہتمام شاہد رشید کرتے تھے۔ ٹرسٹ کے سامنے پارک کا نام مجید نظامی نے مادر ملت پارک رکھا تھا۔
صدر محفل صدر محمد رفیق تارڑ تھے۔ کمپیئرنگ حسب معمول شاہد رشید کے پاس تھی۔ کمپیئرنگ بھی کسی محفل کو زندہ رکھتی ہے۔ علامہ احمد علی قصوری نے محفل کے آغاز میں دعا کروائی۔ محفل کا ارادہ اور آرزو ان کی جامع دعا میں سمٹ آیا تھا۔ اس طرح دعا اور مدعا میں فرق مٹ جاتا ہے۔ آج محفل میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ برادرم شاہد رشید کے بقول مجید نظامی اس موقعے کیلئے ہمیشہ چاہتے تھے کہ خواتین کی نمائندگی زیادہ ہو۔ مادر ملت خواتین کیلئے شمع محفل بھی نشان منزل بھی ہیں۔
ڈاکٹر پروفیسر پروین خان نے مادر ملت کیلئے سوز بھرے لہجے میں گفتگو کی۔ یہ مصرعہ پڑھا
سوئے مادر آ کہ تیما رت کند
حاضرین میں بیھٹی ہوئی نائلہ عمر رونے لگ گئی کہ اس کی ماں انہی دنوں میں فوت ہوئی ہیں۔ محفل میں سب سے پہلے صدر محفل صدر محمد رفیق تارڑ نے گفتگو کی۔ یہ صدارتی خطاب کی نئی روایت ہے۔ وہ مجید نظامی کی طرح ہر محفل کی صدارت کرتے ہیں۔ پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود باقاعدگی سے تشریف لاتے ہیں۔
برادرم فاروق الطاف نے کہا کہ وہ اپنے عظیم بھائی کی طرح ہمیشہ سچ بولتی تھیں۔ جو ہوتا ہے وہ بہادر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے مادر ملت کے بہادر خاتون ہونے کی بات بار بار کی۔ انہوں نے کہا کہ عورت کو ہونا ہی بہادر چاہئے۔ لیڈر خاتون مہناز رفیع نے بتایا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی تھی کہ قومی سطح پر مادر ملت اکیڈمی بنائی جائے جیسے اقبال اکیڈمی اور قائداعظم اکیڈمی ہے۔
برادرم شاہد رشید نے ایک شاندار کتاب مادر ملت کیلئے لکھی ہے۔ جس کا نام مجید نظامی نے محسنۂ ملت رکھا۔ مادر ملت کیلئے 49 کتابیں لکھی گئیں جن میں اول انعام شاہد رشید کو دیا گیا۔