ایدھی فائونڈیشن کے بانی عبد الستار ایدھی محض ایک شخص ہی نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔کچھ عرصے پہلے میں نے کراچی جا کر ٹیلی ویژن کے لیے ان کا خصوصی انٹر ویو ریکارڈ کیا تو ان کی شخصیت اور خدمات کے حیران کن پہلو سامنے آئے۔عبدالستار ایدھی نے پاکستان میں رفاح عامہ کے کاموں کی ایک ایسی مثال قائم کی ہے کہ ایسا مرتبہ کوئی دوسرا پاکستانی حاصل نہ کر سکا ۔ ہمہ وقت متحرک شخصیت ہردم انسانیت کی مدد کے لیے تیار۔
ایدھی 1928 میں بھارتی ریاست گجرات کے علاقے جوناگڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔عبدالستار ایدھی کا خاندان قیام پاکستان کے فوراً بعد بھارت سے ہجرت کر کے کراچی آیا۔ ایدھی صاحب گزشتہ چھ دہائیوں سے انسانیت کی خدمت کے اس مشن کو جاری رکھے ہوئے تھے۔پاکستان کے علاوہ دنیا کے 73ملکوں میں ان کا فلاحی نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔انہیں حکومت پاکستان نے نشان امتیاز بھی عطا کیا۔ اب تک انہیں275سے زائد ملکی اوربین الااقوامی ایوارڈز مل چکے ہیں۔ایدھی صاحب کو احترام کے طور پر مولانا کا لقب دیا گیاتھا لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی مذہبی سکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ انسانیت کی خدمات پر انہیں ڈاکٹر یٹ کی اعزازی سند بھی دی گئی تھی ۔
1965 میں عبدالستار ایدھی نے بلقیس ایدھی سے شادی کی جو ان کی ڈسپینسری میں بطور نرس کام کر رہی تھیں۔ ان کی دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔ بیٹافیصل ایدھی اور بیٹی کبر یٰ ایدھی اب یہ ٹرسٹ اپنی والدہ کے ساتھ مل کر چلا رہے ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے رفاحی کام کا آغاز اپنی والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد شروع کیا۔ آپ کی والدہ محترمہ فالج اور شوگر کی مریضہ تھیں۔عبدالستار ایدھی نے مقدور بھر کوشش کی کہ اپنی والدہ کا علاج کروا سکیں لیکن وسائل اور حالات ساز گار نہ تھے ۔ ان کی رحلت کے بعد ایدھی صاحب نے اپنی زندگی انسانیت کے لیے وقف کرنے کا عزم کیا۔عبدالستار ایدھی نے زندگی کے مصائب، مشکلات اور پریشانیوں کا حل خدمت خلق میں اس طرح ڈھونڈا کہ لوگوں کو حیران کر دیا۔ 1951 میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے پانچ ہزار روپے کی ادویات سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بینچ پر ہی سو جاتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔
1957 میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت ادویات فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں یہ ڈسپنسری تھی اس عمارت میں زچگی کے لیے سینٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے بھی سکول کھول لیا،یہاں ہی سے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز ہوا ۔
ملک کے بڑے شہروں میں کل 17 ایدھی ہومز ہیں، جن کے علاوہ ایدھی شیلٹرز، ایدھی ویلج، ایدھی چائلڈ ہوم، بلقیس ایدھی میٹرنٹی ہوم، ایدھی اینیمل ہاسٹل، ایدھی فری لیبارٹری، ایدھی فری لنگر بھی کام کر رہے ہیں۔لاوارث لاشوں کی تدفین کا کام بھی ایدھی فائونڈیشن انجام دیتی ہے۔ایدھی فائونڈیشن نے ملک کے کئی شہروں میں عوامی کچن کے نام سے غریب اور نا دار افراد کے لیے مفت خوراک کا اہتمام بھی کیا ہواہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے کئی کلینک، زچگی ،ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے لیے پاگل خانے ، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ لا وارث بچوں کے لیے شہر میں کئی جھولے لگائے گئے۔ لوگ لاوارث بچے ان جھولوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔ان بچوں کی کفالت کے لیے فائونڈیشن نے "اپنا گھر" کے نام سے یہ منصوبہ کئی دہائیوں قبل شروع کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق کئی لاکھ لاواث بچے اور بے گھر افراد"اپنا گھر" میں رہ چکے ہیں۔ان کا پیغام تھا"مارو نہیں،جھولے میں دال دو،کوڑے میں مت پھینکو ،ایدھی کو دے دوـ"۔
ایدھی فائونڈیشن کے پاس اس خطے کا سب سے بڑا ایمبولینس فلیٹ بھی ہے۔ 1997گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ایدھی ایمبولینس سروس کو کسی بھی نجی ادارے کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس قرار دیا گیا ہے۔ ائیر ایمبو لینس فلیٹ انسانی اعضاء اور خون کی بوتلوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک منتقل کرنے میں بڑامعاون ہے۔
ایدھی فائونڈیشن بیرون ملک بھی انسانیت کی مدد کے لیے سرگرم ہے۔ پاکستان کے علاوہ فائونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا کے علاوہ قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک میں بھی ایدھی کی امدادی ٹیمیں پہنچ جاتی ہیں۔ فائونڈیشن کاموٹو ہے۔"Live and let live"۔
ایدھی فائونڈیشن کے تمام پراجیکٹس مخیر افراد اور عوام کے عطیات اور زکوۃ کی رقم سے چلائے جاتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی حکومت اور مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے تھے۔عطیات، صدقات کی رقم کا باقاعدہ حساب رکھاجاتا ہے اور اس مد میں رقم دینے والے افراد جب چائیں اس کی تفصیل حاصل کر سکتے ہیں۔ایدھی صاحب کو بعض اوقات حیران کن صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔بلوچستان میں سفر کے دوران انہیں ڈاکوئوں نے گھیر لیا۔ ڈاکوئوں کو جب پتہ چلا کہ یہ عبد الستار ایدھی ہیں تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ عزت و تکریم دی بلکہ معذرت کرتے ہوئے دو کروڑ روپے کا عطیہ بھی پیش کیا۔
ایدھی صاحب کو پاکستان کے علاوہ پوری اسلامی دنیا میں ایک بلا غرض اور محترم شخص کے طور پر عزت حاصل ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ روایتی پاکستانی لباس پہنتے ، ایدھی فاؤنڈیشن کا بجٹ کروڑ ہا روپے کا ہے جس میں سے اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرتے۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی کون سی خواہش ایسی ہے جسے پورا کرنے کی تمنا ابھی باقی ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ان کی اس خواہش کی تکمیل پاکستانی عوام کو آسان اور بہترین طبی سہولت فراہم کرنے میں بڑی معاون ہو گی۔ انہوں نے وطن کے نادار، غریب اور مصیبت زدہ افراد کی مسیحائی میں تاریخی کردار ادا کیا۔ان کے آخری الفاظ تھے ۔ "میرے وطن کے غریبوں کا خیال رکھنا" اللہ تعالیٰ ایدھی صاحب کی مغفرت کرے اور اعلیٰ درجات عطا فرمائے۔آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوںگی کہ پنہاں ہو گئیں