مادر ملت اور تحریک انسداد تپدق

تحریک آزادی کے مﺅرخین اور محققین میں اس امر پر مکمل اتفاق ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح اگر اپنی زندگی کے آخری سالوں میں انہیں لاحق موذی مرض کو نہ چھپاتے تو اسلامیانِ ہند کو مملکت خداداد پاکستان کی شکل میں ملنے والے آزاد و خودمختار وطن کے حصول کی جدوجہد (خاکم بدہن) شاید کامیاب نہ ہوتی۔ بابائے قوم کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بہت بڑا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی بطور ڈینٹیسٹ پریکٹس چھوڑ کر قبل از آزادی اپنے برادر عزیز کی اس محنت اور لگن سے مدد کی کہ انہیں پاکستان حاصل کرنے کی جدو جہد میں کامیاب و کامران بنایا جس کے ایک ہی سال بعد قائد اعظم موذی مرض کا شکار ہو کر انتقال کر گئے۔ آخری وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے بھی قائد اعظم کی وفات کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر مجھے علم ہو جاتا کہ مسٹر جناح کو ٹی بی کا مرض لاحق ہے تو شاید میں بریٹش گورنمنٹ اور ہندﺅوں کو ہندستان کی آزادی میں دو سال تاخیر سے قائل کردیتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کی مہلک بیماری کو چھپا کر خود تحریک آزادی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ شاید یہی کردار محترمہ کی ان کاوشوں کا باعث بھی بن گیا جو انہوں نے پاکستانی قوم کو اس موذی بیماری کی روک تھام کے لیے انجام دیں۔ قائد اعظم کی پیاری ہمشیرہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کے مقاصد میں اگر حقیقی جمہوریت کی بحالی اور قومی ترقی اور خوشحالی کے حصول کو شامل کیا تو ساتھ ہی ساتھ وہ پاکستانی عوام کو ایک صحت مند و توانا قوم کی حیثیت سے بھی دیکھنا چاہتی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ واقعی تپدق جیسا مرض اس مملکت کے عوام کو لاحق امراض میں اہم حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں 1955میں لاہور کی مخیر اور درد دل رکھنے والی 25شخصیات کی جانب سے اپنے خرچ پر قائم کردہ ٹی بی اینڈ چیسٹ کلینک کے افتتاح کی دعوت دی گئی جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا اور اپنی تقریر میں فرمایا کہ "پاکستان میں صحت عامہ جیسی عظیم نعمت کے حصول میں تپدق جیسا مرض بہت بڑی رکاوٹ ہے جسے ختم کرنا ہمارا فرض اولین ہونا چاہیے۔"محترمہ نے کلینک کے منتظمین کو اس بارے میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایااور اپنی 

جیب سے بھاری رقم بھی بطور مالی امداد عطا کی۔ اپریل 1956میں اس ٹی بی کلینک کی کرتا دھرتا شخصیات نے ملک بھر کو تپدق سے پاک کرنے کا بیڑا اٹھا کر پاکستان اینٹی ٹی بی ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈال دی اور رسم افتتاح کے لئے بھی محترمہ فاطمہ جناح ہی کو دوبارہ دعوت دی۔ محترمہ نے نہ صرف ایسوسی ایشن کی رسم افتتاح ادا کی بلکہ سر پرست اعلی کی ذمہ داری انجام دینے کی درخواست قبول بھی کر لی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کے عظیم برادر عزیز قائد اعظم کے خصوصی معالج ڈاکٹر سید ریاض علی شاہ کو پہلا صدر منتخب کر لیا گیا جبکہ دیگر ایسی شخصیات کو بھی بڑے بڑے عہدے دیے گئے۔
قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ کی سرپرستی میں قائم شدہ یہ ایسوسی ایشن نصف صدی سے زائد عرصہ سے اپنے نصب العین کے حصول کے لئے محض عطیات اور رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے اصحاب کے اشتراک سے اپنا کام بخوبی چلا رہی ہے اور خدا تعالی کے فضل و کرم سے وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں تپدق جیسی موذی بیماری کی روک تھام کے لئے جو جدو جہد کر رہی ہے وہ کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہو رہی ہے۔ اسی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ نصف صدی قبل ملک کی جتنی آبادی اس مرض کا شکار ہوتی تھی اب اس کی تعداد تقریبا ایک چوتھائی رہ گئی ہے اور ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ پہلے تو ٹی بی کو لا علاج مرض کہا جاتا تھا جبکہ گذشتہ چند برسوں سے یہ مکمل قابل علاج ہو چکی ہے اور مریض اگر باقاعدگی سے دوا لیتا رہے تو صرف آٹھ ماہ کے عرصے میں وہ تندرست ہو سکتا ہے۔ رضاکارانہ خدمات اور درد دل رکھنے والی شخصیات کے عطیات سے چلنے والی پاکستان اینٹی ٹی بی ایسوسی ایشن کی ملک بھر میں 100سے زائد شاخیں قائم ہیں اور مریضوں کی تشخیص اور مفت ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ کے لئے ایک ہزار سے زائد امدادی مراکز کام کر رہے ہیں جہاں ہر ماہ ہزاروں مریض مفت طبی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں ۔ ایسوسی ایشن کے صدر چودھری محمد نواز اور دیگر عہدیدار بلا تنخواہ رضاکارانہ خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں اور مادرملت اور قائد اعظم کے معالج ڈاکٹر سید ریاض علی شاہ کا لگایا ہوا یہ پودابڑھ کر ایک گھنا سایہ دار شجر بن چکا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...