22 سالہ ” برہان مظفر وانی شہید “

کامل ایک برس بیت گیا۔ کشمیروں کے لیے یہ ایک سال شائد ایک صدی پر بھاری گزرا ہے۔ پل پل مرنے والوں کے لیے زندگی کا ہر لمحہ بھاری ہوتا ہے۔ 8جولائی کو برہان مظفر وانی کی برسی ہے۔ اس برس یہ برسی مسئلہ کشمیر سے لگاﺅ رکھنے والے افراد دنیا بھر میں منا رہے ہیں۔ پاکستان ، برطانیہ ، امریکہ، عرب ممالک اور دیگر سینکڑوں جگہوں پر کشمیر کی آزادی کے حامی افراد کے لیے برہان مظفر وانی آزادی کا ایک استعارہ ہے۔ اہل کشمیر وہ آزاد کشمیر کے رہنے والے ہوں یا بھارت کے جبری قبضے والے کشمیر سے‘ ان کے لیے 22سالہ شہیدبرہان وانی آزادی کی تحریک کے ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک جیا اس کو آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ جب کم عمری میں دنیا سے رخصت ہوا تو کشمیر میںہر انسان کا دل دکھی اور ہر آنکھ نم تھی۔صرف22 برس ‘ یہ بھی کوئی عمر ہے دنیا سے جانے کی؟ وانی کے والد کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کے جنازے میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ جگہ کی تنگی کے سبب کئی بار جنازہ پڑھایا گیا۔آخر یہ کم سن نوجوان” ہیرو“ کیسے بن گیا؟ جموں کشمیر کے ایک گاو¿ں شریف آباد میں ایک اسکول پرنسپل مظفر احمد وانی کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ اس قدر اہم کیوں ہو گیا کہ برمنگھم اور نیویارک کے حکمرانوں کو اس کی برسی پر ہونے والی دعائیہ تقاریب کھٹکنے لگی ہیں۔ پندرہ سال کی عمر میں گھر چھوڑ جانے والا یہ ہیرو 2010ءمیں کشمیر میں ہونے والے فسادات کے بعد آخر کیوں اتنا ابھر کر سامنے آیا کہ بھارت کی ساڑھے سات لاکھ فوج مقبوضہ وادی میں ہوسٹیج بن کر رہ گئی ہے ؟ اور جس کی جدوجہدبھارتی فوجیوں کا دردِسر بن گئی ہے؟ جس کی آواز پر لبیک کہنے والے200کے قریب مقامی کشمیریوں نے بھارت کے اداروں کوپریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کے لیے ہمیں برہان وانی کی جدوجہدپر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔
2010ءمیں کشمیر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ کشمیر کا گوشہ گوشہ بغاوت کی علامت بن گیا۔ کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئیں۔ کرفیو نے عام آدمیوں کی زندگیوں برباد کر دیں۔ عورتوں کو گھروں سے اٹھا لیا گیا۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں سے نوجوانوں کو گرفتار کر کے ماورائے عدالت قتل کیا جانے لگا۔ بھارتی فوجیوں نے گھروںمیں داخل ہو کرنوجوانوں کو تشدد کے بعدقتل کرنا شروع کیا تو کچھ نوجوان اپنی جان بچانے کے لیے گھروں سے بھاگ نکلے۔ یہ کوئی10 کے قریب نوجوان تھے۔ کم سن اور نو عمر۔پھر ان کے ساتھ چند افراد اور شامل ہو گئے۔انہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے سیلف ڈیفنس کی تربیت لی تو بھارتی فوجیوں نے انہیںجہادی قرار دیا۔بعد ازاں 2011ءمیں ان میں سے کچھ نوجوان مقبوضہ کشمیر کی مقامی افراد کی تنظیم حزب المجاہدین میں شامل ہوگئے۔ان میں ایک برہان مظفر وانی بھی تھے۔ حزب المجاہدین دیگر کشمیری عسکریت پسند تنظیموں کی طرح ہندوستان کے مظالم کے خلاف مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ یہ نوجوان باقی نوجوانوں سے ذرا ہٹ کے تھے۔ بھارتی فوجیوں سے اسلحہ چھینتے تھے اور انہی پر استعمال کرتے تھے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک، یو ٹیوب اور ٹویٹر پر مقبول رہے۔ جہاں وہ اپنی تصاویر اور وڈیوز بھیجا کرتے تھے۔اسی سبب برہان کو پوسٹر بوائے کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ان کے بڑے بھائی خالد مظفر وانی اپنے تین دوستوں کے ہمراہ2015 بھارتی فوجیوں نے بے دردی سے قتل کر دیا۔اس کے بعدبھارتی حکومت نے برہان کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کی۔
برہان نے ایک معتدل انسان کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔ اسی لیے وہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کشمیری ہندﺅں میں بھی مقبول تھے۔ اپنی ایک ویڈیو میں انھوں نے جنوبی کشمیر کے نوجوانوں کو اس تنظیم میں شامل ہونے کی اپیل کی اور کہا کہ اب تک اس تنظیم میں 30 کے قریب نوجوان شامل ہوچکے ہیں۔برہان کی مختلف ویڈیوز منظر عام پر آتی رہیں ۔ جن سے ان کے نظریات کے بارے میں آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ وانی کشمیر میں بھارتی علاقوں میں رہنے والے ایسے ہندﺅوں کی آباد کاری کے خلاف تھے جو کہ کشمیری نہیں ہیں۔ وہ کشمیر کو اسرائیل اور فلسطین طرز پر بدلنے کی مخالفت کرتے تھے ۔ان کے نزدیک کشمیر ی پنڈت کشمیر میں رہ سکتے تھے۔ انھوں نے بھارت سے آنے والے ہندو زائرین کے قافلے پر حملہ کرنے اور انہیں تکلیف پہنچانے سے سختی سے منع کیا۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری جنگ بھارتی فوج کے ظالمانہ قبضے کے خلاف ہے۔ کشمیر میں بسنے والے لوگ کوئی بھی ہوں اور ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، ان سے ہماری کوئی جنگ نہیں وہ ہمارے بھائی ہیں‘۔برہان وانی نے کہا تھا کہ ہم صرف ان وردی پوشوں کو نشانہ بنائیں گے جو کشمیرکے امن کو تباہ کرنے کے لیے انڈیا کے مظالم کی پشت بانی کریں گے۔ہمارامقصدکشمیر کی آزادی ہے جو کہ ہمارا اقوام متحدہ کی قرار داروں کی روشنی میں مانا ہوا حق ہے۔ ہمارا اصل دشمن بھارت ہے جو کشمیرپر ناجائز قبضے کی صورت میںکشمیریوں کا قاتل ہے۔ کشمیر کی سرزمین ہماری ہے اور اس پر صرف کشمیریوں کی حق ہے۔وانی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ بھارتی میڈیاان کی آزادی کو تحریک کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے۔اگر یہ لوگ واقعی سچ کہنا چاہتے ہیں تو انہیں کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ انہیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا پتہ چل سکے۔ اس کے منہ میں وہی زبان ہے جو بھارتی ادارے بولتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بھارتی میڈیا جھوٹ کی کاشت کر رہا ہے۔ سچ کہنا اور بولنا بھارت جیسے جمہوریت کے چمپئین کے ہاں شائد غیر جمہوری روایت ہے۔
8جولائی کو ٹھیک ایک سال قبل انہیں ان کے دو ساتھیوں کے ہمراہ شہید کیا گیا۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کی خبر پوری ریاست میں بہت تیزی سے پھیلی جبکہ نوجوانوں کی جانب سے شدید رد عمل بھی دیکھنے میں آیا۔ احتجاج شروع ہوا تھا۔جس میں سیکیورٹی فورسز اور نوجوانوں میں تصادم ہوا۔ 2 روز کے دوران احتجاج میں 17 سے زائد افراد کو شہید کیاگیا۔کشمیری نوجوانوں کی جانب سے فورسز پر پتھراو¿ کیا گیا جبکہ ہندوستانی فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلے آنسو گیس استعمال کی مگر احتجاج کنٹرول نہ ہونے پر فائرنگ کی جس کے بعد کئی افراد ہلاک ہوئے۔ ان کی شہادت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جس میں اب تک 200 سے زائد افراد شہید جبکہ دو ہزار افراد کی آنکھیں ضائع ہو چکی ہیں۔بیس ہزار افراد ایک سال میں زخمی ہو چکے ہیں۔پاکستانی وزارت خارجہ نے برہان کی شہادت کی مذمت کی اور مظاہرین کی شہادتوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ وزیراعظم پاکستان نے برہان مظفر وانی کو آزادی کا سپاہی قرار دیا۔انہیں پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا گیا۔

ای پیپر دی نیشن