”میرا دل چاہتا ہے کہ مجھے”میزائل“ کے ساتھ باندھ کر انڈیا پر پھینک دیں“۔
”انڈیا ضرور چلوں گا مگر تب جب”آپ“ ٹینک پر بیٹھ کر جائیں گے“۔ نظریاتی سپہ سالار پاکستان ”ڈاکٹر مجید نظامی“۔
جب بھی ”ہمسائے“ کی شرارتیں، سازشیں، مکروہ عزائم آشکار کرتے بیانات دیکھتے، پڑھتے ہیں تو ”قبلہ مجید نظامی“ بے طرح یاد آتے ہیں۔ اُن کی موجودگی ایک ڈر، خوف تھا جو ”حکمرانوں“ کو باندھے رکھتا تھا۔ جب بھی اُس طرف سے کوئی حرکت ہوتی، اِدھر سے ترنت جواب دیا جاتا بلکہ ”حکومت“ مجبور ہوتی کہ عملاً نہ سہی، زبانی سرزنش ہی کردیتی، مگر اب؟ نہ وہ تاریخ ساز لوگ رہے نہ حریت پسند، دبنگ آواز حکمران، دشمن کو مشترکہ جواب تو دیوانے کی بڑ ہے۔ اکیلی ”بہادر فوج“ ہر طرف کا بوجھ، ملبہ اُٹھا رہی ہے۔
”مُودی“ کی یاترا ہمیشہ پاکستان کے خلاف نت نئی سازشیں، شیطانی جال بُننے کا کام کرتی ہے۔ ”اسرائیل“ نے (ہمیشہ کی طرح) پاکستان کے خلاف ہر ممکن مدد کا اعلان کیا تو اعلان سے زیادہ دُکھ اِس بات سے ہوا کہ ہماری طرف سے ایک سطر مذمت بھی دیکھنے، سُننے کو نہ ملی۔ پانچویں مرتبہ وزیراعظم بننے کا دعویٰ کروانے والے ”سیاحتی سیر سپاٹے“ میں مگن ہیں۔
”اسلام آ باد“ کی مدد کے بغیر افغان استحکام ممکن نہیں۔ کشمیر میں تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ (تشدد ختم کیا ہونا، اُلٹا کیمیائی ہتھیاروں کا بے رحمانہ استعمال شروع ہے)۔ پاکستان نے اپنا رویہ نہ بدلا تو ہمیں اپنا رویہ بدلنا پڑے گا۔ ”جان مکین“، بے حد سینئر سینیٹر سر دو گرم، چشیدہ امریکی سیاستدان،
پہلا بیان پاکستانی سرزمین پر دیا گیا۔ دوسرا ”کابل“ کے بطن سے برآمد ہوا۔ پہلا بیان ہی سچ ہے جو وہ اکثریتی وقت بولتے رہے۔ ہماری قربانیوں کو سراہتے رہتے مگر حدود بدلتے ہی مزاج، لہجہ بدل جاتا ہے۔ لیول ”بین الملکی“ کی بجائے علاقائی تھانوں کی حدود مانند ہو جاتا ہے۔ ”ہمسائے“ کی چودھراہٹ ”امریکہ +کابل“ کی بدن بولیوں میں تھرکنا شروع ہو جاتی ہے۔ کابل میں امن ہمارے تعاون کے بغیر محال ہے۔
یہ ہم نہیں خود ”سپر پاور“ کا یقین ہے۔ اس سچائی کا اعتراف ”اعلیٰ حکام سے نچلے اہلکار“ تک بارہا اعلانیہ کرچکے ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ یہ ناگزیر، اٹل سچ وہ اپنے ”مزارع“ کو سمجھائیں جو مکمل طور پر بد اعتمادی، شکوک کے سائے میں جی رہا ہے۔ امریکی پرچم تلے بیٹھ کر اب ہمارے ساتھ کام کرنے پر راضی ہوا ہے تو بدلنے میں دیر نہیں لگائے گا۔
”قبول، نامنظور“ کی پالیسی سُکھ، چین، استحکام کی راہ میں کلیدی رکاوٹ ہے۔ صدیوں کا احسان کندھوں پر سجائے افغانستان مسلسل الزام تراشی کے مرض میں مبتلا ہے۔ شیطانی پلاننگ، مذموم دہشت گردی کا ”ان داتا“ بنا گلے کی پھانس بن چکا ہے۔
ہرتین سے تعلقات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ”الزامات، ڈومور“ کا ناجائز بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ دہشت گردی کے سانحات کی پوری تاریخ ”شیطانی اتحاد ثلاثہ“ کے کردار سے بھری پڑی ہے۔ ایک آدھ نہیں، سینکڑوں جاسوس پکڑے گئے، خوفناک کہانیاں، وارداتیں، کیا کچھ نہیں برآمد ہوا مگر نتائج؟؟
”ریمنڈ ڈیوس“ کا معاملہ کیا ہے؟؟ سرحدی علاقے، مارٹر شیلنگ، دھواں دار فائرنگ کی زد میں ہیں۔ کبھی روزانہ، کبھی ہفتہ میں ایک مرتبہ معصوم لوگ دشمن کی بربریت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
پھر نظر ایک تصویر اور اُس کے نیچے چھپی خبر کو پڑھتی ہے۔ ”سرحدی کمانڈرز“ کا مٹھائی کے ٹوکروں، پھولوں کے گلدستوں کا تبادلہ، کبھی ریاستی اہلکاروں کی ملاقات۔ ”الفاظ“، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال، ہنستے مسکراتے چہرے، بے گناہ مارے جانے والوں کے دُکھ سے صاف، کِسی بھی غم، فکر سے پاک، خیر سگالی، خوشگوار فضا میں ہونے والی ملاقات میں باہمی تعاون کو بڑھانے اور اعتماد سازی کے لیے درکار مزید نئے اقدامات اُٹھانے کا مشترکہ فیصلہ، باہمی اتفاق، مفاہمت کی جاری صورتحال پر گہرا اطمینان، ازاں بعد یہاں ”مشترکہ اعلامیہ“ کی جگہ ”مشترکہ ایکشن“ سکرین پر دکھائی دیتا ہے۔ ایک نہیں درجن بھر مثالیں تاریخ کا بدنما حصہ ہیں۔ بعینہ یہی تصویر ”ریمنڈ ڈیوس“ کی ہے۔
دن، بدن سیاسی، معاشرتی، معاشی لحاظ سے کمزور ہوتا ملک دنیا کی اکثریتی آبادی پر بندوق تان کر امن قائم نہیں کرسکتا۔ اسلامی انتہا پسندی کا مفروضہ قطعاً غلط ہے۔ دنیا میں کہیں بھی مذہب کو خطرہ نہیں۔ صرف ”اسلام“ یلغار کا سامنا کر رہا ہے جو کہ مستند ”امن پسند دین“ ہے۔
امریکی سر زمین، امریکی مصنوعات دنیا کے ہر شخص کی طرح ہمیں بھی پسند، مرغوب ہیں۔ ضرورت ہے کہ باہمی اعتماد، بھروسہ کو فروغ دیا جائے۔ صرف ہم پر دباﺅ ڈالنے کی روش کو ختم ہونا چاہیے۔ تبھی آگے بڑھا جا سکے گا۔
”قومی حمیت، وقار کیا ہوتا ہے“، سرحدی تنازع پر ”چین“ کے موقف کو پڑھئیے۔ ”بھارتی فوج“ کو متنازعہ علاقوں سے غیر مشروط واپس جانا ہوگا۔ یہ نہیں کہا کہ واپس چلی جائے یا باہمی بات چیت کے ذریعہ حل نکالتے ہیں بلکہ واضح الفاظ ملاخط فرمائیں ”جانا ہوگا“۔ کِسی بھی طرح کی سودے بازی سے صاف انکار کرتے ہوئے تنازع حل نہ ہونے کی صورت میں جنگ چھڑنے کی وارننگ دیدی۔ انڈیا اِس دھمکی کو اپنی گیڈر بھبھکی جیسی نہ سمجھے۔ قومی مفاہمت کیا ہوتی ہے۔ ”ایک صفحہ“ کیا ہوتا ہے؟
یہاں تصویر بہت صاف دِکھائی دیتی ہے۔ میڈیا، عوام سبھی حکومتی موقف کے ساتھ نہ صرف جُڑے نظر آتے ہیں بلکہ سخت طیش کا عالم ہے۔ ایسا سبق سِکھانے کا مشورہ ہے کہ قیامت تک بُھول نہ پائے۔ 1962ءکی جنگ سے زیادہ نقصان کی ”چتاﺅنی“ ہے۔ یہ چتاﺅنی انڈین ساختہ نہیں بلکہ ”عظیم قوم“ کی زبان سے ادائیگی ہے۔ اُن کے اخبارات ”حقیر اور کمزور فوج“ جیسے القابات سے بھرے پڑے ہیں۔
”قومی حمیت اور وقار کیا ہوتا ہے؟“
Jul 10, 2017