اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) برہان وانی شہید کی برسی کے موقع پر کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی فائرنگ اور سات افراد کی شہاد ت نے ان خدشات کو پھر تقویت دی ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان چودہ سالہ جنگ بندی معاہدہ ٹوٹ سکتا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق بی جے پی حکومت آنے کے بعد سے یہ معاہدہ خطرات سے دوچار ہے لیکن اسرائیل اور امریکہ سے سرحدی سلامتی کی ٹیکنالوجی، جدید ترین سینسرز کی تنصیب اور نئے ڈرون حاصل کرنے کے بعد کنٹرول لائن پر بھارت کا رویہ روز افزوں معاندانہ اور جارحانہ ہو رہا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع اور دیگر سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے پاکستانی علاقہ میں سرجیکل سٹرائیک کے روزانہ دعوے ، دراصل ،پاکستان کو اشتعال انگیزی پر اکسانے کی کوشش ہے تا کہ کسی بہانے اس محاذ کو گرمایا جا سکے۔ ان ذرائع کے مطابق اس وقت صرف سیاچن کا محاذ ایسا ہے جہاں دونوں طرف سے خاموشی ہے ورنہ کنٹرول لائن کے تمام سیکٹروں میں بھارتی فوج کی جارحیت اور پاکستان کے جواب کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ برس اور رواں سال کے شروع تک، ورکنگ باﺅنڈری پر بھی دونوں ملکوں کی سیکورٹی فورسز آمنے سامنے رہیں اور کشیدگی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ سرحدی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی ۔ اس ہمالیائی علاقہ میں بھارت نے دونوں پڑوسی ملکوں چین اور پاکستان کے ساتھ بیک وقت فوجی کشیدگی پیدا کر رکھی ہے۔ ایک طرف کنٹرول لائن پر بھارت ، آزاد کشمیر کی شہری آبادی کو نشانہ بنائے ہوئے ہے تو دوسری جانب اس کے فوجی بھوٹان کے علاوہ سے ہو کر چین کے علاقہ میں داخل ہو چکے ہیں ۔ ان ذرائع کے مطابق بھارت کی اس دو رخی حکمت عملی کا مقصد ایک بار پھر مظلوم بن کر عالمی برادری اور بطور خاص مغربی حلیفوں اور امریکہ کو باور کرانا ہے کہ اسے بیک وقت چین اور پاکستان کے خطرہ کا سامنا ہے ۔ اس اعتبار سے بھارت ساٹھ کی دھائی کی اس فوجی اور سفارتی حکمت عملی کو دوبارہ بروئے کا ر لا رہا ہے جس کے نتیجہ میںاس نے دونوں ہاتھوں سے امریکہ اور برطانیہ سے فوجی امداد سمیٹی تھی۔ اس بار بھارت کا مقصد محض فوجی امداد حاصل کرنا نہیں بلکہ کشمیریوں کی اس جدوجہد کو بھی پس منظر میں دھکیلنا ہے جس نے اب مغربی ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ایک اور ذریعہ کے مطابق 2003 کے جنگ بندی معاہدہ کی آڑ میں بھارت نے کنٹرول لائن پر باڑ لگانے اور سینسرز کی تنصیب کا کام مکمل کرنے کے بعد ورکنگ باﺅنڈری پر بھی مشاہداتی ٹاورز کی تعمیر مکمل کر لی ہے چنانچہ اب وہ اس جنگ بندی معاہدہ کو ضروری نہیں سمجھتا۔ ایک مغربی سفارتی ذریعہ کے مطابق جنگ بندی معاہدہ کا برقرار رہنا ،پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے۔ جنگ بندی ختم ہونے کی صورت میں پاکستان کو مشرقی حد بندیوں پر مزید فوج متعین کرنا پڑے گی جس کے باعث مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کے کام سے توجہ ہٹ سکتی ہے ۔ جنگ بندی قائم رہنے کی صورت میں بھارت کو دراندازی کے میبنہ خطرے کا کم سامنا رہے گا۔
بھارتی اشتعال انگیزیوں کے باعث جنگ بندی معاہدہ ٹوٹ جانے کا خدشہ
Jul 10, 2017