کراچی ، لاہورکوپیرس اور وینس نہ بنائیں!

یوں تو اسٹیل ٹائون سے شہر کی طرف آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔ لیکن گزشتہ چا ر روزمتواتر آنا جانا لگا رہا، تو سفر کے تجربات اور مشاہدات میں یکسانیت پائی۔ الحمد للہ، قومی شاہراہ کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے ، اس لیے سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے گاڑی اور بندے کی ٹوٹ پھوٹ سے تو چھٹکارا مل گیا ہے اور قریبا 40 کلو میٹر پر محیط سفر ماضی کے مقابلے میں جلد طے ہوجاتا ہے۔ اسٹیل ٹائون سے قائد آباد تک ٹریفک پولیس کے اہل کار ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اپنی روزی حلال و حرام کررہے ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے اہل کارنوجوانوں سے خصوصی محبت کرتے ہیں اور سلام دعا اور بخشش کے لیے ان کو ضرور کچھ دیر اپنے پاس ٹھہراتے ہیں۔ بعض بے مروت نوجوان اور ٹرک ڈرائیور ٹریفک پولیس کے روکنے پر بھی نہیں رکتے، جس سے ٹریفک پولیس کی دل آزاری ہوتی ہے۔ ایسے بے مروت افراد سے خصوصی ملاقات کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے منزل پمپ کے فلائی اوور سے قبل ریفلیکٹرز سڑک پر خوب ابھار کر لگائے گئے ہیں، تاکہ گاڑیوں کی رفتار کم ہو اور نوجوانوں، گاڑی و ٹرک مالکان سے ملاقات کا قوی امکان ہو، اس مقام پرملاقاتی ٹیم پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ ایسے ہی ریفلیکٹرز قائد آباد کے فلائی اوور سے قبل بھی لگائے تھے ۔ لیکن ملاقاتیوں کا رش بڑھنے کی وجہ سے ان کو اکھاڑ لیا گیا۔ ان ریفلیکٹر کے لگنے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ قوم کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ٹرک ، ٹریلرز اور بڑی گاڑیوں کی رفتار ان ریفلیکٹرز کی وجہ سے مدھم ہوجاتی ہے اور پل پر چڑھنے کے لیے بڑی گاڑیوں کو جورفتار درکار ہوتی ہے وہ ختم ہوچکی ہوتی ہے ۔ بڑی گاڑیوںکے انجن نئی توانائی مجتمع کرتے ہوئے خراماںخراماں پورے پل کو گھیر کر چڑھائی چڑھ رہے ہوتے ہیں اورقوم ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگی ہوتی ہے۔ کالا بورڈ کے پل سے قبل بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ کراچی کے شہری ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اس لیے ہر پل کے آغاز اور اختتام اور گلیوں کی نکڑپر بس اسٹاپ بنایا ہوا ہے۔ پل پر چڑھنے اور اترنے اور گلی میں داخل ہونے والی ہر گاڑی کا استقبال بس اسٹاپ اور گلی کی نکڑ پہ کھڑے یہی شہری کرتے ہیں۔ کراچی کے شہری ناشکرے بھی بہت ہیں۔ ہر وقت پانی کی کمی کا رونا رہتے ہیں اور اس معاملے پر دنگا فساد سے بھی باز نہیں آتے۔ ہم اس کی تردید کرتے ہیں کہ شہر میں پانی کی کوئی کمی ہے ۔ کیونکہ ہر بڑی شاہراہ اور علاقے میںلاتعداد پانی سے بھرے این۔ ایل ۔ سی کے بڑے ٹینکر اور دیگر نجی ٹینکر پانی ٹپکاتے دیکھے ہیں۔ بعض موٹر سائکل سوار تو اس ٹپکے ہوئے پانی کو دیکھ کر موٹر سائکل سمیت پھسل پڑتے ہیں اور پانی کا نمونہ چیک کرتے پائے جاتے ہیں۔ بجلی کی بچت ہمارا قومی شیوہ ہے ۔ اس لیے اندھیرے میں بھی اکثر شاہراہوں پر روشنیاں نہیں جلائی جاتیں۔ قومی شاہراہ پر شمسی توانائی سے چلنے والی روشنیاں نصب کی گئیں ہیں۔ لیکن وہ روشنیاں بھی شمسی توانائی کی بچت کرتی ہی نظر آتی ہیں۔ مین شا ہراہ پر اسٹیل موڑ پر ایک چورنگی تعمیر کی گئی ہے ۔ رات کے اندھیرے میں گاڑیاں اس چورنگی سے ٹکراتی رہتی ہیںکیونکہ اس چورنگی پر بھی شمسی توانائی کی بچت جاری ہے۔ محکمہ زراعت بھی آبادی کے جنگلات بڑھانے میں ہمہ تن مستعد ہے ۔ اور جہاں جہاں ان کی نرسریز ہیں۔ وہاں کی سڑکوں پر پھدکنیاں بنائی ہیں ، ان پھدکنیوں پر شہری اپنی گاڑیوں سمیت پھدکتے پھرتے ہیںاور بچپن کی اچھل کود و پھاند اور پھدکنا یاد کرتے ہیں۔ بعض بد ذوق افراد ان پھدکنیوں پر سے پھدکتے وقت غیر متشرع الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، جو بہرحال نا مناسب ہے۔ حال ہی میں سی۔ او ۔ ڈی کے سامنے بنی ان پھدکنیوں کو ختم کردیا گیا ہے ، جس کا ہم کو گہرا قلق ہے۔ لیکن اب اس کی جگہ بہت بڑے اسپیڈ بریکر بنا دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہونے کا قوی امکان ہے۔ شہریوں کو خریداری کی سہولیات بہم پہنچانے کے لیے راشد منہاس روڈ پر اور شہر کے مختلف علاقوں کی اہم شاہراہوں پر سپر مارکیٹ اور ڈپارٹمنٹل اسٹور کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، شہری اپنی گاڑیاں مین روڈ پر کھڑی کرکے خریداری کے لیے سپرمارکیٹ اور ڈپارٹمنٹل اسٹور میں تشریف لے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر ٹریفک جام رہتا ہے اور ٹریفک میں پھنسے شہری، شہریوں کی نت نئی گاڑیاں سڑک پر کھڑی دیکھ کردل ہی دل میںنجانے کیا بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ ہر شہری کی خواہش ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ بھی تخت نشیں ہو۔ شہریوں کی اس دلی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے، شہر کراچی کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر شہریوں کی تخت نشینی کے لیے قالین اور گائو تکیوں سے مزین تخت بچھادیے گئے ہیں۔ جہاں شہری جوق در جوق طعام تناول فرماتے ہیں اورایک خلق خدا ان کی قسمت پر رشک کرتی ہے اور تخت پر براجمان دیکھتی ہے۔ عام انتخابات کی آمد آمد ہے اورشہر کراچی میں سیاسی رہنمائوں کی آمد بھی جاری ہے ۔ گزشتہ دنوں ایک خادم ملت جب کراچی تشریف لائے تونہ چاہتے ہوئے بھی شاہراہ فیصل پر نئے تعمیر شدہ انڈر پاس سے لے کر اسٹار گیٹ تک ہم بھی ان کے استقبال کے لیے موجود رہے اور خوب پسینے میں شرابور وخوار ہوئے۔ سابق خادم اعلیٰ پنجاب بھی کراچی تشریف لائے اور خوش خبری سنائی کہ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد کراچی کو لاہور بنائیں گے۔ کچھ سیاسی رہنما کراچی کو پیرس بنانے کا دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم جیسا کمزور ایمان والا بندہ اس اعلان کے بعد سے پریشان ہے کہ کراچی اگر پیرس بن گیااور پیرس کے جلوے کراچی کی سڑکوں پر دکھائی دینے شروع ہوگئے توہمارے ڈانواڈول ایمان کا کیا بنے گا۔ لہذا، کراچی کو پیرس بنانے کا دعوی کرنے والوں سے ہماری گزارش ہے کہ کراچی کو کراچی ہی رہنے دیں، ہاں بس انسانوں کے رہنے لائق بنادیں۔ لاہور میں حالیہ بارشوں کے بعد اور کراچی میں بھی بارشوں کے بعد شہر کو وینس بنتے تو ہم نے دیکھا ہے۔ سابقہ خادم اعلی پنجاب کی خدمات کے ہم معترف ہیں۔ جب وہ لاہور کو وینس بناسکتے ہیں تو کیا پتہ کل شہر کراچی کو پیرس یا وینس بنادیں۔ اس لیے ان سے بھی درخواست ہے کہ کراچی کو لاہور یا پیرس بنانے کے دعوے اور وعدے پر نظر ثانی کریں اور کراچی کی شناخت اس سے چھیننے کی کوشش نہ کریں۔ اسی طرح اگلی مدت کے لیے بھی تخت لاہور او رسندھ پر حکمرانی کا موقع جس سیاسی جماعت کو بھی نصیب ہووہ شہر لاہور کی سابقہ تاریخی حیثیت کی حفاظت اور بحالی پر توجہ مرکوز رکھے۔ کراچی، لاہور کوپیرس یا وینس بنانے کے چکر میں نہ پڑے کیونکہ بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں ، ’’ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا ۔ ‘‘

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...