پاکستان کی سیاست اور سیاسی تاریخ دونوں کو قابل رشک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظمؒ کو زندگی نے مہلت نہ دی کہ نوآزاد ملک کو اپنے وژن کے مطابق فلاحی اسلامی ریاست بناتے۔ اُن کی رحلت کے بعد یہاں سول اور خاکی بیوروکریسی نے جو گُل کھلائے وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر بدنما داغ ہیں۔
1988ءمیں جنرل ضیاءالحق نے غیر جماعتی الیکشن کرانے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن اس سے پہلے کہ الیکشن آتا وہ اگلی دنیامیں جا بسے۔ قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی مشاورت سے فیصلہ کیاکہ عام انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں۔ اُدھر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے اینٹی پیپلز پارٹی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنوایا۔ پیپلز پارٹی کے باغی رہنما اور نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی کو آئی جے آئی کا سربراہ بنایا گیا۔ دیگر جماعتوں میں مسلم لیگ (فدا گروپ) جس کے سیکرٹری جنرل نواز شریف تھے‘ جماعت اسلامی‘ مرکزی جمعیت اہلحدیث‘ جمعیت علمائے اسلام (س)‘ جمعیت مشائخ پاکستان و چند ایک مزید جماعتیں شامل تھیں۔ الیکشن 2018ءمیں 1988ءکے برعکس اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر چیرہ دستیوں کے باوجود بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی 207 میں سے 93 جنرل نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی جبکہ آئی جے آئی کو محض 54 نشستیں ملیں۔ تاہم پیپلز پارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی تو بنی لیکن سادہ اکثریت بنانے کے لیے اسے 104 ممبران کی ضرورت تھی۔ سو بے نظیر بھٹو کو صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے اپنی شرائط ماننے پر مجبور کر دیا۔ بے نظیر بھٹو نے اُن کی جو شرائط تسلیم کیں اُن میں چند ایک یہ تھیں کہ غلام اسحاق خان اگلے پانچ سال کے لئے صدر ہوں گے‘ وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب خان ہوں گے۔ اُدھر صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کی لگ بھگ ایک جتنی نشستیں آئی تھیں اور فیصلہ کن حیثیت آزاد ارکان اسمبلی کو حاصل تھی جن کی تعداد 29تھی۔ پیپلز پارٹی نے سردار فاروق احمد خان لغاری کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سلمان تاثیر کی رہائش گاہ پر پیپلز پارٹی کی صوبائی پارلیمانی پارٹی کا پہلا اجلاس ہوا۔ فاروق لغاری نواب اور سردار تھے۔ اُن کا سیاسی رویہ بھی ویسا ہی تھا۔ اُدھر نواز شریف نے الیکشن کے اگلے دن سے ہی آزاد ارکان اسمبلی سے اُن کے یہاں جا کر ملاقاتیں شروع کر دی تھیں۔ سو وہ اپنی اکثریت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس میں جنرل حمید گل نے کتنا حصہ ڈالا ہو گا اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جنرل مرحوم اس کے بعد ساری عمر نواز شریف سے اُن کے عروج کے زمانے میں ناراض رہے کہ ہمارا لگایا ہوا پودا ہے اور ہمیں ہی گھاس نہیں ڈالتا۔
1988ءمیں وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور وزیر اعلیٰ نواز شریف کے درمیان تعلقات میں کشیدگی نے میاں نواز شریف کوبے نظیر بھٹو کے ہم پلہ لیڈر بنا دیا۔ وزیراعظم کی حیثیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو جب پہلی مرتبہ لاہور آئیں تو ائیر پورٹ پر اُن کے استقبال کے لیے گورنر پنجاب چودھری الطاف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف سمیت اعلیٰ حکام بھی موجود تھے جبکہ جیالوں کی بہت بڑی تعداد بھی ائیر پورٹ کے ایپرن پر موجود تھی۔ محترمہ طیارے سے اُتریں تو نواز شریف نے قطار میں سب کے ساتھ مل کر اُن کا استقبال کیا لیکن بے نظیر بھٹو کے گاڑی میں بیٹھتے ہی جیالے نواز شریف کے گرد ہو گئے اور نواز شریف ٹھاہ‘ گنجے رام چند کی جے، سمیت دیگر مخالفانہ نعرے لگاتے اُن پر جھپٹے۔ وزیراعلیٰ کی سکیورٹی نے بمشکل نواز شریف کو جیالوں کے نرغے سے نکالا اور گاڑی میں سوار کرایا۔ اسی روز شام کو ممتاز صحافی سید سعود ساحر کے ہمراہ میری گورنر چودھری الطاف سے گورنر ہاﺅس میں ملاقات ہوئی۔ وہ سخت غصے میں تھے۔ انہوں نے جناب سعود ساحر کو مخاطب کیا اور جیالوں کو گالی نکال کر کہاکہ انہوں نے آج نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں لیڈر بنا دیا ہے۔ پرانے مسلم لیگی لیڈر چودھری الطاف کا سیاسی اندازہ درست ثابت ہوا اور نواز شریف محض دو سال بعد پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے بلکہ وہ پاکستان کے پہلے سیاسی رہنما ہیں جو تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے ہیں۔ 1988ءاور 1990ءکے دوران ایک مرتبہ سید یوسف رضا گیلانی نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی جو کہ آخری مرحلے میں اسٹیبلشمنٹ کی سازش نے ناکام بنا دی۔ آنے والے انتخابات سمیت ہر الیکشن میں بعض غیر جمہوری کرداروں کا ذکر آتا ہے۔
پاکستان کے 70 سے اب تک کے تمام اہم سیاستدانوں نے خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے یابے نظیر بھٹو ‘ نواز شریف ہوں یا عمران خان یا آصف زرداری‘ چودھری شجاعت ہوں یا چودھری پرویز الٰہی‘ بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کسی نہ کسی وقت کھیلتے رہے ہیں۔ نواز شریف اور اُن کا خاندان اس وقت زیرعتاب ہے۔ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف یقیناً مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔
قسمت کے دھنی نواز شریف نے اپنے سیاسی کیرئیر میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اُتار چڑھاﺅ دیکھے۔ اُن کو مرد بحران بھی کہا جاتا رہا ہے۔ 70ءکی دہائی میں نواز شریف نے اپنی تعلیم مکمل کی اور میدان سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے انہیں آل پاکستان کشمیری کانفرنس کا صدر چُنا گیا۔ اس تنظیم کے بانی صدر علامہ اقبالؒ تھے۔ میاں نواز شریف نے 70ءکی دہائی میں تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی۔ وہ ائیر مارشل اصغر خان کی سیاست اور دیانت سے بہت متاثر تھے۔ 1977ءکے مارشل لاءکے بعد وہ دوبارہ اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئے۔ جنرل ضیاءالحق نے 1981ءمیں مجلس شوریٰ اور پنجاب میں صوبائی کونسل بنائی۔ اس میں نواز شریف کو شامل کیا گیا اور وہ پنجاب کے وزیر خزانہ بنے۔ اُن کو پنجاب کے گورنر جنرل جیلانی کی حمایت حاصل تھی۔ 1985ءکے غیر جماعتی الیکشن میں نواز شریف لاہور سے بیک وقت رکن قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تاہم انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔ صدر غلام اسحاق خان نے 1990ءمیں کرپشن کے الزامات لگا کر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو چلتا کیا۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کو اپنا ہتھیار بنایا‘ 1990ءکے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر آئی جے آئی اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے تھیں۔ غلام مصطفی جتوئی نگران وزیراعظم تھے۔ آئی جے آئی کے سربراہ کی باری جمعیت علماءاسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی تھی لیکن بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں نواز شریف چونکہ ہم پلہ لیڈر بن کر سامنے آئے تھے سو مولانا سمیع الحق نے ”رضاکارانہ“ طور پر یہ عہدہ نواز شریف کو سونپ دیا۔ 1990ءکے الیکشن میں آئی جے آئی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ نگران وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی آئی جے آئی کی طرف سے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے خواہاں تھے لیکن اُنکی خواہش کو نواز شریف نے کس طرح ناکام بنایا۔ یہ کہانی کسی اور کالم میں بیان کی جائےگی۔
نواز شریف 1990ءمیں وزیراعظم منتخب ہوئے اور محض تین سال میں غلام اسحاق خان نے انہیں اٹھاون ٹو بی کے تحت گھر بھیج دیا۔ اسمبلیاں توڑ دیں لیکن سپریم کورٹ نے غلام اسحاق خان کے اقدام کو غلط قرار دیتے ہوئے نواز شریف حکومت بحال کر دی۔ اسٹیبلشمنٹ کو یہ شکست گوارا نہ تھی سو محض چند روز بعد آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کی ثالثی میں فیصلہ ہوا اور وزیراعظم نواز شریف کی شرط کے مطابق صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف دونوں گھر چلے گئے۔
1993ءکے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں اور میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں نواز شریف واقعی لیڈر بن کر ابھرے۔ مسلم لیگ اُن کے نام سے منسوب ہوئی جوکہ اب مسلم لیگ (ن) کہلاتی ہے۔ 1997-99ءکی تاریخ بھی قوم کے سامنے ہے۔ 1999ءکے فوجی انقلاب کے بعد کون کہتا تھاکہ نواز شریف دوبارہ وطن واپس آئیں گے۔ اُن کی ملک سے غیر موجودگی کے باوجود اُنکے چاہنے والے مسلم لیگیوں نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد کی۔ 2007ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی سے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ بھی ہموار ہوئی اور 2008ءمیں وہ خود تو وزیراعظم نہ بن سکے لیکن اُن کے بھائی اور سیاسی جانشین میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔
تاہم 2013ءمیں اسٹیبلشمنٹ اور میاں شہباز شریف‘ چودھری نثار علی خان کے درمیان معاملات طے پانے سے جن کی توثیق نواز شریف نے کی۔ مسلم لیگ ن کو حکومت ملی اور نواز شریف وزیراعظم بنے۔ اس مرتبہ انکی حکومت کے ساڑھے چار سال اور پھر باقی شاہد خاقان عباسی کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ایک سال میں نواز شریف کے ساتھ جو ہوا وہ انکی سیاسی ز ندگی کا خوفناک باب ہے۔ اب جبکہ انہیں احتساب عدالت سے سزا ہو چکی ہے‘ قید خانے کا دروازہ کھل چکا ہے‘ نواز شریف اپنی شیر دل صاحبزادی مریم نواز شریف کے ساتھ وطن واپس آ رہے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ !