مشاعرے میں کسی کی ایک آدھ غزل یا نظم سننا اور کلام کو کتابی شکل میں پڑھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بعض اوقات کتاب مایوس کرتی ہے اور بعض اوقات معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ناز بٹ کی کتاب پڑھ کر مجھے بے حدخوشی ہوئی جس کا کلّی تاثر اس کے خلق کرنے والے کی فطری صلاحیت کی تصدیق کرتا ہے۔کسی کابھی پہلا شعری مجموعہ بہت اہم ہوتا ہے۔ بعض شاعروں کے پہلے مجموعے میں آئندہ کے نقوش بہت واضح طور پر نمایاں ہوتے ہیں، بعض کے ہاں ان کے سائے موجود ہوتے ہیں لیکن یہ نشانات کسی رستے کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں۔ بعض شاعر اپنی آئندہ کی تخلیق میں اولین نقوش کا اشارہ پاکر آگے کی طرف نکل جاتے ہیں یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بلندی کی طرف پرواز کر جاتے ہیں۔ ایک اور بات جو میں کہنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ نظریہ ساز شاعروں کے ہاں بھی اول اول سب سے اہم اپنا ذاتی تجربہ اور دیانتداری سے اس کا اظہار ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ اول اول قوت اور توانائی دراصل ذاتی اور باطنی تجربے ہی سے کشید کی جاتی ہے اور خارجی موضوعات کے بیان میں بھی وہی توانائی کام آتی ہے۔ ’وارفتگی‘ کی شاعری بھی خالصتاً ذاتی اور باطنی واردات کا حاصل ہے۔ بعض اوقات باطنی واردات کے بیان میں دل اور جذبہ حاوی رہتا ہے۔ بعض اوقات اس میں فکرکی آمیزش اسے زمینی سطح سے اوپر ترفع یا transcendence کی منزل میں لے جاتی ہے۔ بنیادی چیز دونوں صورتوں میں اظہار و بیان کی کشش یا لطف ِ سخن ہی ہے۔ اس کے بغیر نہ ترفع میں لطف ہے اور نہ ہی جذبے کی اولین سطح کے اظہار میں۔ ’ وارفتگی‘ کی شاعری خواہ وہ غزل ہے یا نظم جذبے کی بنیاد پر ہی تخلیق کی گئی ہے۔ اس کتاب کا نام ’وارفتگی‘ ہی ہونا چاہیے تھا۔ اس کی تخصیص وارفتگی ، بے ساختگی اور روانی ہے ، اور جہاں یہ تینوں صفات موجود ہوں وہاں سچائی کا عنصر لازماً ہوتا ہے۔
پہلے دکھ درد کئی دل کے سنبھالے میں نے
پھر کیا خود کو ترے غم کے حوالے میں نے
کیوں کھلے تجھ پہ سفر میں تھی اذیت کیسی
کب دکھائے ہیں تجھے روح کے چھالے میں نے
شہر والوں نے انھیں ابرِ کرم سمجھا نازؔ
اپنے آنسو جو ہوائوں میں اچھالے میں نے
ذاتی طور پر مجھے کتاب میں شامل نظمیں، غزلوں سے زیادہ پسند آئی ہیں۔ نظم کے پہلے مصرعے سے آخری تک خیال کو گرفت میں رکھنے اور بھر پور تاثر سے نظم کو مکمل کرنے پر ناز کو دسترس ہے۔ ناز کی غزل اور نظم کا بنیادی موضوع ایک ہی ہے لیکن اسے ان دونوں اصناف کی ٹیکنیک کے فرق کا پورا ادراک ہے۔ اس کی بیشتر نظمیں مدھم رنگوں سے بنی ہوئی تصویر کی طرح معلوم ہوتی ہیں۔ کہیں کہیں وہ بعض مقبول اور مروجہ اسالیب سے متاثر نظر آتی ہے لیکن کلی طور پر اس کتاب میں کئی ایسی نظمیں ہیں جو بہت کامیاب اور ہیتی اور تاثراتی سطح پر جامع اور مکمل ہیں۔ ’ واہ رے عشق کمال‘ ایسی ہی نظموں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ ’ سوال‘ ، ’ میرا مسیحا‘ ، ’سراب‘ ، ’ توہی تو‘ ، ’ اسے کہنا‘ ، ’ارتقا‘ او ر ’ خاموش لفظوں کی سزا ‘ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ ایک نظم ’ رات ڈھلنے لگی‘ ایک مکمل نظم کی بہترین مثال ہے۔ ناز بٹ کی بٹ ایک نظم رات ڈھلنے لگی بہت رواں اور اچھی نظم ہے
رات ڈھلنے لگی
بام و در سے لپٹنے لگیں وحشتیں
پتلیاں ایک نقطے پہ مرکوز اور ..... سانس رکنے لگی....
دل کی دھڑکن بھی ہونے کو تھی منجمد....
اور پھر یوں ہوا۔۔۔۔۔۔ !
اور پھر یوں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھتے دیکھتے......
نقطہ پھیلا تو اک دائرہ بن گیا......
جو مناظر نہاں ایک نقطے میں تھے.....
دائرہ دائرہ ......
میرے چاروں طرف رقص کرنے لگے......
سانس چلنے لگی ......
میری تنہائی کو (اک زمانے سے جو میری ہمراز تھی)......
تیری یادوں نے آغوش میں لے لیا......
دل کی دھڑکن نے دی مجھ کو اپنی خبر......
میر ے ہونٹوں پہ تاثیر اتری ترے لمس کی تو مرا درد بہنے لگا.....
جاں تھرکنے لگی......
من پگھلنے لگا ......
روح کی خواب سی وادیوں میں کہیں......
جیسے کِن مِن سی بارش برسنے لگی......
ساری وحشت ہوا ہوگئی!
ہجر کی قید سے میں رہا ہوگئی!!
میں دعا کرتی ہوں اور خواہش بھی کرتی ہوں کہ نازبٹ اس اسلوب میں نئے مضامین کی آمیزش بھی کرے اور اس سفر کو کامیابی سے دیر تک جاری رکھے۔