اسلام اور ایمان پر حملے کی شرمناک جسارت

Jul 10, 2019

ڈاکٹر اے آر خالد....

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شعائر اسلام کا جس طرح مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ اس ملک اور اس کے بھولے بھالے عوام کے خلاف گھنائونی سازش ہے یا سب کچھ جہالت اورلبرل ازم کے نام پر کیا جا رہا ہے یہ ’’سلوپوائزننگ‘‘ ہے یا اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کی مکروہ منصوبہ بندی کیا اسے نظرانداز کرنے والے بڑے مجرم ہیں یا اسے برداشت کروانے میں کامیاب ہونے والے یا اس کو لانچ کر کے اپنے گھنائونے اور مکروہ مقاصد حاصل کرنے والے۔ عذاب الٰہی ان کی تخصیص اور تفصیل میں جانے والوں کی نیت اور عمل دونوں کے درست ہونے کے باوجود کبھی ٹلا نہیں۔ آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کے اس زبانی یا سیاسی اعلان اور بار بار اعلان کے باوجود کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے جا رہے ہیں جب ریاست مدینہ بنانے کی گزشتہ آٹھ نو ماہ میں کوئی جھلک نظر نہ آئے بلکہ صورت حال اس کے برعکس دکھائی دے تو ساری زندگی اُمید پر مکمل اعتماد و یقین رکھنے والوں کی پختہ سوچ میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔
بے شک اسلام عمل سے نافذ ہوتا ہے نعروں، دعوئوں اور وعدوں سے نہیں۔ اس کے پانچوں بنیادی ارکان عمل کی علامت ہیں۔ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہونا۔ کفر کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آنا دراصل اس بات کی گواہی عملاً دی جاتی ہے ’’کہ اللہ کے سوائی کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔‘‘ یہ گواہی مسجد میں کسی عالم دین کے سامنے لوگوں کی موجودگی میں دی جاتی ہے یہی گواہی کسی کافر اورمشرک کو کفر کے اندھیرے سے نکال کر اسلام کے نور میں لے آتی ہے۔ نماز پڑھی جاتی ہے، قائم کی جاتی ہے ادا کی جاتی ہے ۔ اس کے لیے نماز کے اوقات مقرر ہیں۔ ہر ایک کو اس کی پابندی کرنا پڑتی ہے نہ آج کی نماز کل پر اور نہ صبح کی دوپہر پر اور دوپہر کی شام پر چھوڑی جا سکتی ہے۔ اپنے اوقات کے ساتھ فرض ہونے والی نماز خالق کی اور مخلوق کے درمیان ایسا تعلق ہے جو نظر آتا ہے۔ خالق منشا اور حکم کے مطابق ادا ہوتا ہے زکٰوۃ اپنے کمائے ہوئے مال پر ہر سال ادا کرنے کا حکم ہے جو مسلمان بجا لاتے ہیں اگر کسی نے اس کی تشریح میں اس حکم سے انحراف کرنے اسے ٹالنے کا اشارہ بھی دیا تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تلوار نیام سے نکال کر ایسا سوچنے والوں کو سخت گرفت میں لینے کا پیغام دے دیا۔ روزے فرض ہوئے تو اس کے لیے رمضان کا مہینہ مختص ہے یہ باقاعدہ دینی حکم کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ حج صاحب استطاعت پر ذوالحجہ کے مقررہ دنوں میں فرض ہے۔ منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں رکنے کے اوقات تک مقرر ہیں۔ احرام کے سوا حج نہیں ہوتا اس کے رکن اور دوسرے ارکان کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے نہ کسی کے اس اعلان سے کہ وہ کلمہ پڑھنے جا رہا ہے، زکوٰۃ ادا کرنے کا سوچ رہا ہے۔ حج پر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ نماز کے لیے اللہ سے د عا کر رہا ہے۔ زکواۃ دینے کے لیے اس کوشش میں ہے کہ کوئی مستحق مل جائے۔ یہ سارے زبانی اعلانات اسے خود کو دھوکا دینے کے لیے ہو سکتے ہیں۔ مسلمان کی صف میں اسے نہیں لاتے۔ مختصراً یہ کہ بات اسلام کی ہو یا ایمان کی اللہ اپنے بندوں پر اس کے احکامات ادا کرنے کے لیے نافذ کرتا ہے۔ اسلام میں فائل ورک نہیں عملی کام ہے۔ یہ بات شاید وزیراعظم کی سمجھ میں نہیں آئی وگرنہ اب تک کسی ا یک شعبہ میں ریاست مدینہ کی جھلک دیکھی یا دکھائی جا سکتی تھی۔ امام کعبہ سے رہنمائی لی جاتی تو وہ پاکستان میں آ کر اس دور کو فتنۂ ابلاغ کہہ گئے ہیں۔ میری اگلی کتاب کا نام بھی فتنۂ ابلاغ ہے مگر میں آج اس فتنہ کی جس منہ زوری کا ذکر کرنے لگا ہوں وہ سر اٹھا چکا ہے۔ قرآن میں اللہ نے اپنا ایک ہی کام کرنے کا اعلان فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنوں کو یہ اجازت دیکر اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان عظیم کیا ہے۔ اللہ نے اپنی جس دوسری صفت کا واضح پیغام دیا ہے وہ کن فیکون ہے یعنی اللہ فرماتا ہے میں کہتا ہوں ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔ حکومت کی بدنصیبی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی۔ ڈراموں میں ہر قدر کو تہس نہس کرنے والے ایک خاص چینل نے خالق کائنات کی صفت کن فیکون پر ڈرامہ بنایا ۔اگر وزیر اعظم واقعتا اس ملک میں ریاست مدینہ کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں تو ڈرامے کی آڑ میں اسلام کے خاندانی نظام، عورت کے احترام ، ماں کے مقام، بیوی، بہن بیٹی بہو کے احترام پر ہر ڈرامے میں ضربیں لگانے والے ایسے چینلز کو بند نہیں کر سکتے تو اخلاقی قواعد و ضوابط کا پابند یا راہ راست پر لانے کیلئے ریاست کو تقاضے پورے کرنے دیں۔ کن فیکون لکھنے کی جسارت کرنے اس میں کام کرنے اس کی پرموشن کرنے اور اس کے آن ائیر کرنے والے سارے معاملے کی مکمل تحقیق کر کے ان تمام افراد کو اور بالخصوص جملہ انتظامی عہدیداروں سے بازپرس کی جائے۔ یہ کوئی جذباتی مطالبہ نہیں دینی حمیت اور غیرت کا تقاضا ہے ۔ شاید وزیر اعظم اس بات سے آگاہ نہ ہوں کہ پاکستان کے کسی معروف ڈرامہ نگار نے اس چینل کے لیے ڈرامہ نہیں لکھا کیونکہ جو نئے لکھنے والے یہاں متعارف ہوئے انہوں نے انتظامیہ کی اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کی حامی بھر کر لکھنا شروع کیا ہے کہ وہ ہر رشتے کے تقدس کو مجروح کرینگے ۔ کسی ڈرامہ میں یہاں بیوی کے مقدس رشتہ کو نہیں دکھایا گیا ، میاں اپنی کسی گرل فرینڈ کے ساتھ اور بیوی اپنے کسی سابق عاشق کے ساتھ ، میاں بیوی کے مقدس رشتہ کی دھجیاں اُڑاتی نظر آئے گی۔ رشتوں کے اعتماد کو ختم کرنے کے بعد اتنی بڑی جسارت تو کسی غیر مسلم اور سیکولر ملک میں بھی نہیں کی گئی۔ عمران خاں اس طرف سے آنکھیں بند کرنے کا مطلب یہ لیا جائیگا کہ حکومت اس ساری مشق میں برابر کی شریک ہے۔
وزیر اعظم فوراً ایکشن لیں اور ایسی گستاخانہ جسارت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ یہ آزادی اظہار یا آزادی صحافت نہیں ایمان پر حملہ ہے۔

مزیدخبریں