کس کی لگن میں پھرتے ہو اور معاصر سفر نامے

میرے سامنے سفر ناموں کی ایک تاریخ ہے۔ یونانی ادیب ہومر کا سفرنامہ Odyssey جسے سلیم الرحمن نے اردو میں جہاں گرد کی واپسی کے عنوان سے ترجمہ کیا، ابن بطوطہ اور مارکو پولو کے سیاحت نامے اور جدید دور میں ابن انشا، عطاالحق قاسمی کے سفر نامے میری نگاہوں کے سامنے گھوم گئے، بلاشبہ سعید آسی کا سفر نامہ ادب عالیہ میں ایک قابل فخر اضافہ ہے۔
سعید آسی کے سفرنامے نے کئی مباحث کو جنم دیا ہے۔ اس کی ایک تقریب رونمائی میں بزرگ سیاست دان اور وکیل سید افضل حیدر اور افتخار احمد مہمان مقرر تھے جبکہ اظہار خیال کرنے والوں میں سید محفوظ قطب، وحید رضا بھٹی، خالد محمود سلیم، منظور احمد، عمار چودھری، علامہ عاصم، معظم علی خاں اور شبیر عثمانی شامل تھے۔ محترمہ صغریٰ صدف کا بھی انتظار تھا مگر وہ چین کے سفر سے بر وقت واپس نہ آ سکیں۔ گفتگو کا آغاز خود سفر نامہ نگار سعید آسی نے کیا۔ انہوںنے یہ راز کھولا کہ یہ کتاب جزیرہ جزیرہ کے نام سے پہلے بھی شائع ہوئی تھی مگر ناشر بعض مشکلات کی وجہ سے پاکستان ہی چھوڑ گیا اور کچھ پتہ نہ چلا کہ یہ سفر نامہ کہاں ڈمپ ہو کر رہ گیا، اب اسی سفر نامے کی نوک پلک سنوار کر اور نئے گیٹ اپ کے ساتھ علامہ عاصم نے شائع کیا ہے۔ سید افضل حیدر نے سفرنامے پر روشنی ڈالی مگر انہوں نے ابتدا دو نسلوں کے سفر کی دلچسپ اور تاریخ ساز روداد سے کی۔ یہ ایسی کہانی ہے جو الگ کالم کی متقاضی ہے۔ افتخار احمد نامور صحافی ہیں، ٹی وی اینکر بھی ہیں۔ انہوں نے سعید آسی کی صحافت کے آغاز کی کہانی بیان کی اور لاہور پریس کلب، لاہور ہائی کورٹ اور ایم آر ڈی کی ایسی حکایت لذیذ چھیڑی کہ اس کے لئے بھی الگ کالم درکار ہے۔ مجموعی طور پر سعید آسی کے سفر نامے کو سراہا گیا اور اس کی خوبصورت طباعت و اشاعت کے لئے علامہ عاصم کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ سوال اٹھا کہ اچھے سفر نامے کی خصوصیات کیا ہونی چاہئیں۔ اس ضمن میں ایک تو یہ نکتہ سامنے آیا کہ سفرنامے کو ادبی معیار کی شرط پوری کرنی چاہئے۔ اس میں غیر ضروری تفصیلات لکھنے سے گریز کیا جائے۔ یہ کہ فلائٹ نمبر کیا تھا،۔ سیٹ کونسی ملی۔ ایئر ہوسٹس اور عملے کے دیگر ارکان کا رویہ کیا تھا۔ جہازکے اندر صفائی ستھرائی کا عالم کیا تھا۔ دوسرے ملک کے ایئر پورٹ پر اترنے کے بعد کیا مشکلات درپیش آئیں۔ مقررین کی رائے تھی کہ کسی قاری کو ان تفصیلات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ لکھنا کہ سرکاری دورہ صرف ایک تقریب کے بعد دوسری تقریب اور سفر در سفر کا عالم پیش کرتا ہے، یہ بھی قاری کے وقت کا ضیاع ہے۔ مگر سفر نامے سے یہ پتہ نہ چلے کہ دورے سے حاصل کیا ہوا اور اہداف کیا تھے۔ ایساکوئی موازنہ نہیں کیا جاتا۔ بعض سفر نامے شاعروںنے لکھے ہیں۔ ان میں ٹکٹ بھیجنے والوں اور ایک دعوت کے بعد دوسری دعوت بلکہ ایسی تفصیل کہ کھانا کس کے گھر سے آیا اور موقع ملے تو اہل خانہ کے سب نام درج کئے جاتے ہیں، حتیٰ کہ گھر میں کوئی بچہ فرش پر رینگ رہا ہے تو اس کی معصومیت کی تعریف میں کئی صفحات ضائع کر دیئے جاتے ہیں۔ ایک مشاعرے کا سفرنامہ اگلے کئی مشاعروں کے دعوت نامے لینے کا باعث بنتا ہے۔ یہ قصے سفر کرنے والے اور اس کے میزبانوں کے لئے تو اہم ہو سکتے ہیں مگر قاری کو بوریت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ایک نکتہ یہ تھا کہ بعض سفرنامے محض ناول اور افسانے ہوتے ہیں اور گھر بیٹھ کر چشم تصور سے تخلیق کئے جاتے ہیں۔ یہ سفر نامے لذت کی کہانیوں سے بھرے ہوتے ہیں مگر ان میں مشاہدہ نظر نہیں آتا جو کسی سفر نامے کی اولیں شرط ہوتی ہے۔ مجھے کرنل محمد خان کے دو سفر نامے بجنگ آمد اور بسلامت روی یاد آئے جن کا شگفتہ انداز بیان قاری کو خیرہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ شگفتہ انداز بیان کے ساتھ ساتھ ہر صفحے پر کسی حسینہ کے جلوے مگر شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ ان سفر ناموں کی ایک سطر لطیف مزاح کا شاہکار ہے۔ کہیں قاری کو گھن محسوس نہیں ہوتی۔ مگر بازار میں جو سفر نامے زیادہ مقبول ہیں ان میں جنسیت کے سوا کچھ نہیںہوتا۔ اس نکتے پر بطور خاص زور دیا گیا کہ سفرنامہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ مصنف نے کسی جگہ کا سفر تو کیا ہو۔ ورنہ فرضی کہانیاں الف لیلٰی میں بھی ملتی ہیں۔ اور طلسم ہوش ربا میں بھی۔ مجھے یہاں شفیق الرحمن کا سفر نامہ دجلہ یاد آیا۔ جس کا ایک حصہ ڈینیوب پر بھی مشتمل ہے۔ ظاہر ہے مصنف نے نہ تو دجلہ کے ساتھ ساتھ ان ممالک کا سفر کیا ہے جہاںجہاں سے یہ تاریخی دریا گزرتا ہے اور نہ ڈینیوب کے درجنوں یورپی ممالک کا چکر کاٹا ہے۔ مگر کمال کی بات یہ ہے کہ ان سفر ناموں میں تاریخ بھی ہے، ثقافت بھی ہے اور تمدن کا ذکر بھی اور یہ سارا تذکرہ ایک سفر کی صورت میں ہے۔ قاری اپنے آپ کو ان مقامات اور تاریخ کے ان ادوار میں محسوس کرتا ہے جن کی نقش گری شفیق الرحمن نے کی ہے۔ یہ سفرنامے محض تاریخ کی طرح بوجھل اور خشک نہیں ہیں بلکہ ایک سطر کے بعد اگلی سطر میں قاری اسی دنیا اور دور میں پہنچ جاتا ہے، یہ صرف شفیق الرحمن کو کمال حاصل ہے۔ میں نے یہ سفر نامہ شائع کیا اور مجھے اس کی اشاعت پر آج بھی فخر ہے کہ اردو ادب کو ایک نادر کتاب کا تحفہ دیا۔
سفر ناموں میں ذاتی مشاہدے کی بات ہوئی تو وحید رضا بھٹی نے بتایا کہ انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت میں کم و بیش بیس ملکوں کا سفر کیا مگر وہ پیرس کے ایک واقعے کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک بار شانزے لیزے پر برازیل کے کسی بوڑھے کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا، اس پر پیرس کے فن کاروں نے احتجاج کیا کہ وہ مر گئے ہیں کہ ایک غیر ملکی کے فن پاروں کی نمائش لگا دی گئی۔ میئر پیرس نے کہا کہ انہوں نے آرٹسٹ کو ذاتی طور پر مدعو کیا ہے اور یہ نمائش ایک ہفتے تک جاری رہے گی مگر اس نمائش کو دیکھنے کے لئے پورا پیرس امڈ پڑا اور ایک ہفتے کی نمائش کو اڑھائی ماہ تک توسیع دی گئی۔ سید محفوظ قطب نے آئر لینڈ کا ذاتی مشاہدہ سنایا کہ وہ ایک ٹیکسٹائل مل لگانے گئے تھے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ دفتری جھمیلوں سے کیسے عہدہ برآ ہوں گے۔، ابھی وہ اسی سوچ بچار میں تھے کہ ہر محکمے کا سربراہ خود چل کر ان کے دفتر آیا اور یقین دلایا کہ کہیں نہیںجانا پڑے گا۔ ان کی سبھی ضروریات ان کے دفتر کی دہلیز تک فراہم کی جائیں گی۔ سید محفوظ قطب نے کہا کہ اب آپ اس صورت حال کا موازنہ اپنے ملک سے کر لیں جہاں ایک ایک سہولت کے لئے آپ کو در در کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔
سعید آسی کے سفر نامے میں یہ تمام خصوصیات موجود ہیں۔ ان میںمشاہدہ بھی ہے،۔ ادبی معیار کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ لطافت بیانی بھی ہے۔ منظور احمد اور عمار چوھری کے بقول ایسی رواں دواں کہانی کہ قاری اپنے آپ کو ان کے ساتھ ساتھ سفر کرتا محسوس کرتا ہے۔
یہ متفقہ رائے سامنے آئی کہ سعید آسی کو اپنے قلم کی جولانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ سب کچھ لکھنا چاہئے جو ان کے مشاہدے اور تجرے میں آیا۔
٭٭٭٭٭٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن