گزشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے)مختلف قسم کے ادارہ جاتی قضّیوںمیںگھِرا ہوا ہے ۔ حا لات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پی آئی اے کے معاملات اب بین الاقوامی میڈیا میں بھی زیرِ بحث آنے لگے ہیں۔ پی آئی اے کے حوالے سے یہ درِ ہزیمت اس وقت وا ہوا جب22 مئی 2020 کوایک مسافر طیارہ کراچی ائیر پورٹ سے متصّل ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس حادثے میں 97 کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔حادثے کے بعد پاکستان ایئر فورس کے افسران پر مشتمل ایک خصوصی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حادثہ جہازکے پائلٹس اور ایئر ٹریفک کنٹرول کے عملے کی کوتاہیوں کے باعث پیش آیا ۔بعد ازاں وفاقی وزیرِ ہوا بازی غلام سرور خا ن نے پاکستان کے ایوانِ زیریں میںتقریر کرتے ہوئے کئی اور راز ہائے نہاں بھی طشت از بام کردیئے۔ انھوں نے بتایا کہ پی آئی اے میں تعینات40% پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیں۔ کئی پائلٹس نے اپنی جگہ کسی اور کو مجوزّہ امتحانات میں بٹھایا اور خود ہنر واستعداد ماپنے والی اس پرکھ میں شریک نہیں ہوئے۔ انہوں نے یہ تحیّر خیز انکشاف بھی کیا کہ کچھ پائلٹس کو ہوا بازی کا کوئی تجربہ نہیں ہے! انھوں نے کہا کہ کمرشل پائلٹس کی تعداد 860 ہے اوراِن میں سے 262 کے لائسنس مشکوک پائے گئے ہیں۔اُن کاکہنا تھا کے ایسے پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کے بعد کارروائی کی جا رہی ہے اور اِن کے کیخلاف فوجداری مقدمات بھی درج کیے جائیں گے۔ اِس طوفانِ بلا خیز کی آمد کے بعد وہی ہوا جو اِس نوع کے معاملات کے زبان زدِخاص وعام ہوجانے کی صورت میں ہواکرتا ہے۔ یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی نے بسُرعت پی آئی اے کی تمام پروازوں کی یورپ آمد پر چھ ماہ کے لئے پابندی عائدکر دی۔انگلستان نے بھی پی آئی اے کو مانچسٹر، برمنگھم اور لندن ایئرپورٹس کے استعمال سے روک دیا۔ اِس افسوسناک رپورٹ کو پاکستان میں ادارہ جاتی بربادی کی داستان کا ایک باب ِاذیت ناک سمجھا جانا چاہیے۔تاہم اِس رسوائی کے حوالے سے اہلِ فکرکے اذہان میں لاتعداد سوالات جنم لے رہے ہیں۔ پی آئی اے کے پائلٹس کے خلاف انکوائری کا حکم صاحبان ِ اختیار نے دیا یا کراچی حادثے کی انکوائری کی کارروائی خو د ہی اُس سمت مڑگئی؟ جن پائلٹس کے خلاف انکوائری کی گئی یا جن کے بارے میں مواد دستیاب ہوا کیا اِن کو بھی نکوائری کا حصّہ بنایاگیا؟کیا اِن پائلٹس کو قانون کے مطابق اپنے دفاع کا موقع فراہم کیا گیا؟ خطاکار پائلٹس کے بارے میں معلومات کس ذریعے سے حاصل کی گئیں؟کیا وہ عمل جس کے ذریعے اِن معلومات تک رسائی حاصل کی گئی از رُوئے قانون ہموار اور قابلِ اعتماد تھا؟لائسنسزکے مشکوک ہونے سے کیا مراد ہے؟ کیا لائسنسز جعلی ہیں؟ کیا اِن لائسنسز کو مروجّہ قوانین وضوابط کے مطابق جاری نہیں کیا گیا؟ کیالائسنس حاصل کرنے والے پائلٹس نے تمام امتحانات قوانین کے مطابق پاس نہیں کیے ؟کیا لائسنس یافتہ پائلٹس تعلیمی او رتکنیکی اعتبار سے اس قابل نہیں تھے کہ اُن کو لائسنسزجاری کیے جاتے ؟ کسی بھی انکوائری کے عمل کا شفاف اورقوانین و ضوابط کے مطابق ہونا نہایت ضروری ہے۔ انکوائری کرنے کا بھی ایک مخصوص قانونی طریقۂ کار ہے ۔کیا یہ انکوائری قانون اور ضابطوں کے تحت عمل میں لائی گئی؟ اور کیا یہ انکوائری متعلقہ عدالتوں میں قابل قبول ہوگی؟ عملِ تحقیق ہی اِن سوالات کے تسلّی بجش جوابات حاصل کرنے کی سہل ترین روش ہے ۔چنانچہ پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے سیکشن 3 کے تحت کم از کم تین ممبران پر مبنی ایک آزاد انکوائری کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کمیشن پائلٹس، ایئر ٹریفک کنٹرولرز،انجینیرز، فضائی آپریشن سے متعلق تمام زمینی سٹاف، اہل کار، عملہ اور دیگر تمام کارکنان کے حوالے سے مندرجہ ذیل امور کی مکمل چھان بین کرے:(1 ) یہ تمام افرادی قوّت کن قوانین اور طریقۂ ہائے کار کے تحت پی آئی اے میں بھرتی کی گئی؟(2) کیا اِس بھرتی کا عمل قوانین و ضوابط کے حوالے سے درست تھا؟( 3)کیا اِس افرادی قوّت کی تعلیمی قابلیت مقررہ معیارکے مطابق تھی؟(4)کیا اِن کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال مروّجہ قوانین کی روشنی میں گئی ؟(5)کیا پی آئی اے نے اِن کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تربیت سے بہر ہ ور کیا؟(6) کیا پی آئی اے میں اپنی تمام افرادی قوّت کی کارکردگی جانچنے کا کوئی نظام کارفرما ہے؟(7)کیا پی آئی اے میں اپنی افرادی قوّت کی وقتاًفوقتاً تربیت کا کوئی مربوط نظام موجود ہے؟(8) وہ کون سے عناصر ہیں جواس معاملے میں کسی بھی غیرقانونی عمل کا حصّہ بنے؟کمیشن کی رپورٹ پاکستانی عوام کے سامنے رکھی جائے اور ان تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جو کسی بھی جرم میں ملوّث پائے گئے ہوں۔