حافظ ہشام الٰہی ظہیر ایڈوکیٹ
سیاست حکمرانی کے اسالیب عوام کی اجتماعی راہنمائی اور عوام کا اپنے نمائندگان کے انتخاب کے طرز عمل جیسے وسیع تر مفاہیم کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ دین جو آفاقی سچا اور لاریب ہو۔۔ اس میں ریاست کی تشکیل کے تمام تر اصول مدارج اور لوازمات نبی کریمؐ کی سیرت سے واضح نہ ہوتے ہوں۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسلام پولیٹیکل سائنس کے ضوابط اور اس بارے دینی راہنمائی سے محروم ہو۔۔۔ ۔
اسلام سے قبل کے آسمانی مذاہب کا بھی جائزہ لیں تو سیاسی احکامات حکومتیں اور اقتدار کے تمام تر تاریخی حوالہ جات حاصل کرنے مشکل نہیں۔۔۔
حضرت موسیٰؑ حضرت یوشعؑ حضرت داودؑ حضرت سلیمانؑ اور طالوت جیسوں کی بادشاہت حکومت اقتدار ایک مسلمہ حقیقت ہے۔بالعموم بنی اسرائیل کے انبیاء ہی انکے سیاسی راہنماء ہوتے تھے۔
اسی طرح اسلام کے پہلے سیاسی فکری راہنما اور مدینہ کے ریاست کے والی شاہ عرب و عجم حضرت محمد الرسول اللہؐ ہی تھے۔لیکن چوں کہ اسلام آنے کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔چناچہ سیاسی جانشینی کے لیے امتیوں کا ہی منتخب ہونا لازمی اور یقینی امر تھا۔اور بنی اسرائیل کے انبیاء کا فریضہ امت کے صاحب علم افراد کے حصہ میں آیا۔۔ جو بذات خود بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔۔ ۔
اسی لیے اسلام کے ابتدائی دور میں سیاست و قیادت کا فریضہ امت کے بہترین افراد کے ذمہ رہا۔جو نا صرف انکے سیاسی قائد تھے۔بلکہ مذہبی راہنما اور مصلح کے بھی امام تھے۔۔۔
حضرت ابوبکر ؓسیاست کے امام۔ مصلح کے بھی امام۔ مذہب کے بھی امام۔ اور خلافت راشدہ کے بھی امین تھے۔بعین اسی طرح حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ۔ حضرت امام حسنؓ۔حضرت امیر معاویہؓ بھی تھے۔کوئی کم فہم شخص ہی ان ہستیوں کے ناموں کو سن کر کہہ سکتا ہے کہ اسلام سیاسی راہنمائی سے آشنا نہیں۔ ریاست اور سیاست کو الگ کرنا۔ تاریخ سے عدم واقفیت ہی کا ثبوت ہے اور تو اور مسلمان خلفاء ملوک اور بادشاہ دنیا بھر کے سیاسی راہنماء مانے گئے۔جدید سیاست کا ہر شعبہ انہی مسلم حکمرانوں کی عطاہے۔اور یہ سمجھنا سب مسلمان حکمران یا بادشاہ لہو لعب کا شکار تھے تاریخ سے جہالت ہی ہے۔ آج موجودہ دور میں۔دنیا بھر میں کفار کومسلم حکمرانوں کو صرف اسلام کا وہ چہرہ منظور ہے جو آدھا ہومطلب یہ
کہ مسلمان علماء واعظین مصنفین اسکالرز لوگوں کو نماز روزے حج کی تلقین تو کریںاور اس اسلام سے دنیا میں کسی کو خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ خطرہ صرف ان علماء واعظین مصنفین سے ہے ،جنکا ایمان ہے ،اسلام اور نبی محترم ؐدنیا کے ہر شعبہ میں امام ہیں، خطرہ کس اسلام سے ہے؟
مکمل اسلام سے ،اسلام کی اس تصویر کو جو مسجد تک رہے سب کو قبول ہے لیکن اسلام دکان میں بازار میں محلے میں شہر میں ریاست میں ایوانوں میں کسی کو منظور نہیں۔اسلام جب مسجد سے باہر آتا ہے تو کرپٹ مافیا کو خطرہ محسوس ہوتا کہ یہ تو حرام خوری سے روک کر کڑی سزا دے گا۔
اسلام جب مسجد کی حدود سے باہر آتا ہے تو اوباشوں فاحشوں کو لگتا ہے۔اسلام نہیں باہر آیا بلکہ شراب زنا عریانی کی سزائیں انکے جسموں پر مسلط کی گئی ہیں۔اس لیے دنیا بھر کے تھنک ٹینکس اس نتیجہ پر پہنچیں ہیںکہ اسلام کے سیاسی خدوخال ہی محو کر دو ،مسخ کردو، اسلام کے آفاقی قوانین کو ہی مسلمانوں تک میں مشکوک کر دو۔ظالم کے خلاف آواز کو دبا دو۔۔۔اخوت کی برادری توڑ دو۔ .دنیا ساری فوج رکھ لے۔وطن سب کی فوج ہو چاہے۔۔لیکن اسلام کی فوج کوئی نا ہو۔۔۔وطن چاہے اسلامی ہو قبول ہے لیکن فو ج اسلامی قبول نہیں۔ فوج نظریاتی قبول نہیں۔۔ ۔نا قابل قبول بنا دو۔۔ اور اسی پر بس نہیں یہ پراپیگنڈہ پھیلا دو کہ اسلام بنیادی طور پر سیاست کو ایڈرس ہی نہیں کرتا۔۔۔۔۔مولوی عالم شریف بندے کا کیا کام سیاست میں؟. . . مولوی عالم کا کیا کام ریاست میں۔۔۔مولوی کا کام عبادت میں بس۔۔۔۔