ہماری قومی زبان اُردو کی اہمیت 

کسی قوم کی مجموعی زندگی میں ثقافت کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ قوم کے منتشر افراد کو ایک مربوط اجتماعی نظام میں اکٹھا کرنا اور قوم کو ایک جہت عطا کرنا ، یہ ثقافت ہی کا کام ہے۔ ثقافت کا تعلق ان افکار و اقدار سے ہے جو مذہبی اور اخلاقی ضابطوں میں ، ادب میں ، سائنس اور فلسفہ میں اور آرٹ اور موسیقی میں ملتے ہیں۔ زبان بھی ثقافت ہی کا ایک اہم ترین جزو ہے۔ کسی کلچر کی تشکیل اور اس کی بقا میں اس ثقافتی گروہ کی زبان بھی اہم رول ادا کرتی ہے چنانچہ ممتاز حسین لکھتے ہیں۔ ’’کوئی قوم مضبوط اس وقت بنتی ہے جب اسے بھرپور طور سے معلوم ہو کہ اس کا کلچر کیا ہے اور وہ اپنے اس کلچر کا اظہار اپنی ہی زبان میں کرتی ہو‘‘۔ہر زبان اپنا ایک مخصوص کلچر رکھتی ہے یعنی زبان اپنے بولنے والوں کے ایک خاص کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمیں شروع میں ہی ایک ایسی زبان میسر آئی جو کہ ہمارے مخصوص اسلامی کلچر کی بھرپور نمائندہ ہے۔ اس زبان نے تحریک پاکستان کے دوران بھی جو اہم کردار ادا کیا وہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس زبان نے اپنوں اور بیگانوں کی بلاتفریق رنگ و نسل دل کھول کر خدمت کی۔ بوقت ضرورت سب نے اس کے سائے میں پناہ لی۔ اردو زبان نے سب کو کشادہ دلی کے ساتھ اپنے سینے سے لگایا اور کبھی بھی تنگ دامن نہ نکلی۔ مختصر یہ ہے کہ اردو زبان نے سب کے ساتھ وفا کی مگر افسوس ’’سب ‘‘ اس کے لیے بے وفا ثابت ہوئے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ عربی قبل از اسلام بھی رائج تھی مگر اردو عہد اسلام میں پھلی پھولی۔ اس لیے اسے اسلامی ثقافت کی زبان کہنا ناروا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان کو یہ فخر حاصل ہے کہ جتنا اسلامی لٹریچر اس میں سمایا ہوا ہے کسی اور زبان میں نہیں۔ اردو ہی ہمارے مخصوص اسلامی کلچر کی حامل ہے۔ خوش قسمتی سے ہماری اسلامی روایات ثقافت اور آداب معاشرت کی نہ صرف وارث ہے بلکہ ہماری قومی زبان ہونے کی بھی دعویدار ہے۔ زبان کا لقب اس زبان کو زیب دیتا ہے جس کی وساطت سے تعلیم و تدریس کا نظام قائم ہو اور جو ایک ملک کے نظم و نسق کے اداروں اور عدالتوں کی دفتری زبان ہو۔ یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ اردو زبان میں اتنی زیادہ قوت جذب اور وسعت نظر ہے کہ حسب ضرورت اس میں ہر زبان کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو قومی زبان سے کسی بھی علاقائی زبان کی رقابت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر علاقائی زبان کا اپنے اپنے ملک میں دائرہ عمل واضح طور پر متعین ہے اور یہ سب علاقائی زبانیں ایک ہی ثقافتی نصب العین اور ایک ہی دستور حیات کی ترجمان ہیں اور ہماری قومی زبان کے لیے بڑی قوت کا سرمایہ ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں ایک مخصوص اور محدود مگر مؤثر گروہ ایک غیر ملکی زبان کے سحر میں گرفتار ہے اور اس کی ترویج میں مسلسل کوشاں ہے۔ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید نے ہمیں دین سے بہت دور کر دیا ہے۔ آج ہم ’’ماڈرنزم‘‘ کی آڑ میں بے حیائی ، بدقماشی اور عریانی کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اپنی قومی زبان اردو کے برعکس انگریزی تہذیب اور زبان و کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔نفسانفسی ، بے حسی اور خود غرضی کے اس د ور میں نہ کسی کو مذہب کی فکر ہے اور نہ ثقافت عزیز ہے۔ افسوس کہ ہم دین کی بجائے انگریزی تہذیب و زبان اور کلچر کو اپنانا باعثِ فخر گردانتے ہیں کیونکہ ہمیں اس کلچر میں بے راہ روی اور عیاشیوں کے سامان وافر مقدار میں میسر ہیں۔ دوسری طرف غور سے جائزہ لیں کہ تقوی‘، عفت و عصمت ، حمیت و غیرت ، شرم و حیا، ایمان ، علم ، اخوت اور اس طرح ہزاروں الفاظ جو کہ ایک مسلمان کی زندگی کا حصہ اور اس کے لیے مشعلِ راہ ہیں ان کو اپنا کر ہی ایک مسلمان حقیقی معنوں میں مردِ مومن کہلا سکتا ہے۔ لیکن انگریزی زبان اپنے مخصوص کلچر کی بنا پر مسلمانوں کی ان کیفیات اور احساسات کو ادا کرنے کے لیے اپنے دامن میں الفاظ ہی نہیں رکھتی کیونکہ انگریزی زبان جس سیاسی ، معاشرتی ، مذہبی اور ثقافتی ماحول میں پروان چڑھی ہے وہاں تقویٰ کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ذرا دل و دماغ سے سوچئے کیا انگریزی زبان کے ماحول میں مسلمانوں کے بچے اسلامی نظام حیات کو اپنانے میں قطعی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ انگریزی زبان کے الفاظ اردو کے مقابلے میں قطعی تنگ اور کم مایہ ہیں۔ وہ مسلمانوں کے فکر و خیال کو گمراہی اور بے راہ روی کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی تہذیب کے حامل افراد کی قومی زندگی منتشر اور پراگندہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اسلامی اقدار اور روایات کے اظہار کے لیے جس ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے انگریزی زبان اس سے یکسر قاصر ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...