پچھلے ڈیڑھ دوسالوں نے جہاں بہت سے شعبہ جات کو متاثر کیا وہیں اس Covidکی کارفرمائیوں نے ادبی محافل پر بھی گویاتالے لگادئیے۔میرا بھی ایک طویل عرصہ اسی خوف وڈر کے سائے میں گھر کے اندر ہی گزرا کہ ایک میرے شوہر حسن عباسی نے نوید سنائی کہ اس ہفتے ہم الحمراآرٹس کونسل جارہے ہیں۔تازہ ہوا کا جھونکا بند دریچوں سے خوشبو بکھیرتا ہواسا محسوس ہواہم ادبی لوگوں کو ادبی محافل ہی تسکین مہیا کرتی ہیں۔الحمرا آرٹس کونسل میں معروف کرکٹر عاقب جاوید کی اہلیہ فرزانہ عاقب کی یکمشت5شعری مجموعوں کی تقریب پذیرائی تھی اورچونکہ یہ پانچوں کتابیں نستعلیق پبلیکیشنز کے زیر اہتمام میرے شوہر حسن عباسی نے شائع کی تھیں تو یوں ہمیں اس تقریب کے بطور ِخاص مدعوکیا گیا۔جانبداری سے قطع نظر بلا شبہ بہترین سرورق اور مکمل خوبصور ت کتابیں،اعلیٰ طباعت واشاعت کا شاہکار ہیں۔فرزانہ عاقب بہت نستعلیق شخصیت کی مالک ہیں۔یورپین ڈریس میں ملبوس سنہری بالوں والی اس خاتون کو دیکھ کر انداز نہیں ہوتا کہ وہ اْردو ادب سے اتنی چاہ اور محبت رکھتی ہیں لیکن ان کی کتابیں پڑھنے کے بعد اْن سے ملنے کے بعد اور خاص طور پر جب وہ اسٹیج پر بولناشروع کرتی ہیںتو اپنی زبان سے ایسی محبت بیان ہوتی ہے کہ رْوح تک سرشار ہوجائے۔فرزانہ عاقب خود اپنی ذات میں انجمن ہیں اگرچہ عاقب جاوید اْن کا ایک حوالہ اور رشتہ خاص ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ محترمہ اپنے اندر خوبیوں کا ایک جہان سمیٹے ہوئے ہیں اور اسی سبب سے وہ خود اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوچکی ہیں اس سے قبل بھی ان کے کئی اردو انگریزی شعری مجموعے اور ناول چھپ چکے ہیں۔ دن رات لکھنے کے عشق میں مبتلا محترمہ نے اکٹھے پانچ شعری مجموعے پبلش کروائے ہیں اور اس سلسلہ کو جاری وساری رکھے ہوئے ہیں۔وہ اگلے چند ماہ میں مزید کچھ مجموعے مکمل کرکے چھپوانے کا ارادہ رکھتی ہیں لگتا ہے کہ ان کا یہ جنون ان سے کتابوں کی سنچری کروا کے چھوڑے گا۔آخر ان پر اپنے شوہر کے اوصاف کے اثرات بھی تو ہیں۔الحمرا آرٹس کونسل میں منعقدہ اس تقریب میں سونہایت منتخب افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی۔افراد کی سلیکشن بھی قابل داد ہے۔ادب اورمیڈیا سے تعلق رکھنے والے خاص خاص افراد کو ہی مدعو کیا گیا تھا تقریب کے مہمان خصوصی فیڈرل ایجوکیشن منسٹر شفقت محمود تھے۔ جن کو بچوں کا وزیراعظم بھی کہا جاتا ہے۔نفیس طبیعت کے نرم خوپڑھے لکھے انسان ہیں۔ اپنے اوصاف کے باعث عوام میں مقبول عام ہوچکے ہیں۔سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ انہوں نے پانچ بجے تقریب میں پہنچ جانے کی اطلاع دی اور عین وقت پر تقریب میں تشریف لے آئے۔شفقت محمود بطور خاص اسلام آباد سے اس تقریب میں شرکت کرنے کے لئے تشریف لائے تھے۔سچ بات یہ ہے کہ موجودہ دورِ حکومت کے چند ایک سلجھی ہوئی گفتگو کرنے والے، نرم پالیسیاں اختیار کرکے عوام کے دل میں جگہ بنانے والے گنے چنے چند افراد ہی میں سے ایک ہیں۔اسٹیج پر ان کے ہلکے پھلکے مزاح نے ماحول کو مزید پرلطف بنا دیا تھا۔جب انہوں نے کہا کہ عاقب جاوید کو ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں، تالیاں اور قہقہے بلند ہوئے تو مسکرا کر کہا کم از کم جوانی سے تو دیکھ رہے ہیں۔دوسری مہمان خصوصی ناصرہ اقبال صاحبہ تھیں۔اگرچہ علامہ اقبال سے نسبت اْن کاخاص حوالہ ہے جو قابلِ فخروعزت بھی ہے لیکن محترمہ خود بھی اعلیٰ ترین عہدوں پر نہ صرف کام کرچکی ہیں بلکہ اپنی علمی قابلیت اور اندازوبیان سے عوام میں مقبول عام بھی ہیں۔میڈیا کے معروف لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور پروگرام کو بھی بھرپور میڈیا کوریج دی گئی۔فرزانہ عاقب نے کہا کہ یہاں انگلش لٹریچر میں زیادہ کام نظر نہیں آتا لہذا وہ اس میدان میں زیادہ سے زیادہ کام کرکے انگلش لٹریچر کے ذخیرہ کو بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔عاقب جاوید نے کہا کہ جب ان کے گھر اولاد کی آمد کی خبر ملی تو میں نے دْعا کی کہ اللہ ہمیں بیٹی دے اور اللہ نے ہماری خواہش کو پورا کیا جس پر ہال میں بھرپور تالیاں بجیں۔مزید کہا کہ اس کے بعد مزید اولاد کے بارے میں نہیں سوچا تاکہ ایک بیٹی کو ہی اعلیٰ ترین آسائشیں اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا جاسکے۔ان کی بیٹی لندن کی مشہور زمانہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرچکی ہیں۔یہی ان کی خواہش تھی اور یہی کامیابی ہے۔عاقب جاوید اور فرزانہ عاقب کی ایک دوسرے کیلئے شدید محبت وعزت کو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے، دونوں نے ایک دوسرے کے لئے اپنی اپنی محبت کا اظہار بھی کیا لیکن راقم الحروف کی زندگی بھی ایسی محبتوں سے سرشار ہے۔اللہ نظر بد سے بچائے اور تمام ایسی محبت کرنے والوں کے لئے خوشیاں، آسانیاں، مزید محبتیں اور عزتیں عطا فرمائے۔آمین