19 جولائی کو ایک شاعر دنیا سے رخصت ہوا کسمپرسی اور تنہائی کی زندگی گزارنے والے شاعر کو جب دنیا نے چھوڑا تو اس نے بھی گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ ساغر صدیقی کا دکھ معاشرے کے ان رویوں کا دکھ تھا جو ان کی ذات میں اتنا سرایت کرگیا کہ وہ دنیا سے الگ تھلگ مزاروں سڑکوں اور فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے لگے اور زندگی میں ملنے والے زخموں کا دکھ قطرہ قطرہ اتارنے والے ساغر صدیقی نے انسانوں کی بجائی ایک کتے کو اپنا دوست بنا لیا
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
دکھ یہ نہیں کہ غزل نظم رباعی اور قطعات کو منفرد رنگ ڈھنگ اور اسلوب دینے والا شاعر مرگیا، دنیا دارفانی ہے سب نے جانا ہے دکھ تو یہ ہے کہ ایک ایسا شاعر جو اپنے دور کا منفرد شاعر خود غرضی کی اس دنیا میں کسمپرسی کی موت مرگیا کہا جاتا ہے کہ ایوب خاں جب بھارت گئے تو وہاں انہیں ایک مشاعرے میں بلایا گیا مشاعرے میں ایک شخس نے غزل پڑھی ایوب خاں کو وہ غزل بہت پسند آئی ایوب خان کو بتایا گیا کہ یہ غزل پاکستان کے ایک شاعر ساغر صدیقی کی ہے ایوب خاں جب واپس آئے تو ان کو بلا نے کے لئے کچھ لوگ روانہ کئے وہ داتا دربار میں مفلوک الحال خلیے اور بے کسی کی زندگی گزار رہے تھے اور اپنے حال میں مگن تھے ایوب خان کے ہرکاروں کو دیکھ کر انہوں نے کہا جاؤ جا کر کہہ دو ساغر صدیقی اپنے سوا کسی سے نہیں ملتا ایوب خاں جب خود ملنے آئے تو ساغر صدقی کو دیکھ کر انکی آنکھوں میں آنسو آگئے انہوں نے ہاتھ ملانے سے گریز کیا اور کہا
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے
ساغر صدیقی نے غم دوراں اور غم جاناں کو موصوع سخن بنایا اور ان کی شاعری جہاں گھٹن زدہ معاشرے کے خلاف ایک احتجاجی سدا ہے وہاں محبوب کی کج ادائیوں اور بے وفائیوں کا بھی اظہار ہے جو ان کی شاعری کو انفرادیت دیتا ہے ساغر صدیقی کی شاعری کا احاطہ کریں تو ان کے ہاں زندگی دور کہیں بے اعتنائیوں اور غبار راہ میں کہیں کھوسی گئی ہے اور انہوں زندگی کی تلاش کی بجا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے ان کے اور زندگی کے درمیان فاصلہ
نہ کوئی ہوا ہے نا ساغرنہ ماہتاب نہ تو
بجھا ہوا شبستاں ہے زندگی میری
ساغر قلندرانہ مزاج شخص تھے غزلیں لکھتے بلند آواز میں پڑھتے اور جلا دیتے اس دور کے کئی لوگوں نے چند غزلیں لینے کی خاطر عظیم شاعر کو نشے کی لت میں مبتلا کر دیا کچھ لوگوں ان کی شاعری اور غزلوںسے اپنام نام بنایا اور شہرت حاصل کی اور ساغر صدیقی دنیا کی کج ادائیوں اور خود غرضیوں پر غزلیں لکھتے رہے ساغر صدیقی کی شاعری میں چاشنی درد اثر مٹھاس ترنم موسیقیت کسک ہجراور وصال کی کیفیات سے لیس ہے جو کسی بھی شاعری کو منفرد بناتی ہے۔
پت جھڑ میں بہاروں کی فضا ڈھونڈ رہا ہے
پاگل ہے جو دنیا میں وفا ڈھونڈ رہا ہے
کل رات تو جو شخص ضیا بانٹ رہا تھا
کیوں دن کے اجالے میں ضیا ڈھونڈ رہا ہے
ساغر صدیقی کی زندگی کرب اور کسک کی بھٹی میں تپتی وہ آگ تھی جس نے ان کی شاعری کو تو کندن بنایا لیکن ان کو جلا کر خاکستر کردیا ان کی زندگی میں ان کے چھ مجموعے شائع ہوئے لیکن ان کو کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا کہ زندگی کے خال وخد درست کر لیتے
پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میںآئے پتھر
ہم نے آغوش محبت میں چھپائے پتھر
ساغر صدیقی نے زندگی فٹ پاتھوں کی نذر کردی اور فٹ پاتھ کے کنارے سے ان کی لاش ملی
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں