صدارتی نظام کیوں؟

مکرمی! ایک بار پھر سیاست کے میدان میں صدارتی نظام حکومت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اس بار یہ حملہ ن لیگ کی طرف سے ہوا ہے جس کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے گزشتہ دنوں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’عمران خان وفاقی پارلیمانی نظام جمہوریت کو ختم کر کے ملک میں صدارتی نظام مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ 22 کروڑ عوام ووٹ نہ ڈالیں بلکہ مخصوص الیکٹوریل کالج سیاہ و سفید کا مالک بنے‘‘ اپوزیشن پارٹیاں نہ جانے پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کے کیوں خلاف ہیں۔ ان کا اس حد تک اعتراض درست ہے کہ الیکٹوریل کالج کے ذریعے صدارتی انتخاب نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں بھی اگر مخصوص طبقے کے ووٹوں پر انحصار ہو تو صدارتی نظام کے نفاذ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ جہاں تک 22 کروڑ عوام کے ووٹ کا مطالبہ ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ سربراہ مملکت چند ہزار یا چند سو ارکان اسمبلی کا نہیں ہوتا بلکہ ریاست کے تمام باشندوں کا ہوتا ہے۔ اس لیے صدارتی انتخاب بالغ رائے دیہی سے ہونا چاہیے تو کیا جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کو اس پر بھی اعتراض ہے؟ 
(اقبال ملک ،لاہور)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...