مکرمی! آزاد کردہ غلام (عبدالرحمن بن ایزی) نہایت ذہین و فطین تھا۔ قرآن پاک کا حافظ و قاری بھی تھا۔ تلاوت کو سُن کر لوگو دم بخود رہ جاتے۔ ساتھ ساتھ عالمِ دین بھی تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کا زمانہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس غلام کے آقا نافع بن حارث کو مکہ کا والی مقرر کر رکھا تھا۔ ایک مرتبہ نافع بن حارث حضرت عمرؓ سے ملنے مدینہ آئے تو حضرت عمرؓ نے ان سے دریافت کیا کہ : ’’اے نافع! تم نے اہلِ وادی (مکہ والوں) پر اپنی عدم موجودگی میں کسے حاکم مقرر کیا ہے؟‘‘ حضرت نافع نے عرض کی: ’’عبدالرحمن بن ایزی کو متعین کر کے آیا ہوں‘‘ حضرت عمرؓ نے پوچھا: ’’ابن ایزی کون ہے‘‘؟ جواب ملا۔ ’’یہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں سے ایک ہے۔‘‘ حضرت عمر ؓنے تعجب سے پوچھا ’’اہل مکہ کو ایک آزاد کردہ غلام کے سپرد کر آئے ہو؟‘‘ حضرت نافع نے عرض کی: ’’وہ قرآن کریم کے قاری ، عالمِ دین اور اسلامی قانون وراثت کے ماہر ہیں‘‘ جواب بڑا معقول تھا اور مناسب بھی۔ قرآن پاک کا حافظ ، قاری اور عالمِ د ین ہونا بہت بڑی اہلیت ہے۔ لیکن ایک غلام کا ایک نہایت اہم عہدہ پر فائز ہونا ا یک غیر معمولی کامیابی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر ؓنے اس بات کو سراہتے ہوئے اللہ کے رسولؐ کی ایک حدیث بیان فرمائی جو کہ ہماری توجہ کی محتاج ہے کہ قرآن کی عظمت و صداقت کا حق ہم ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟حضرت عمر ؓنے ارشاد فرمایا: ’’آپ کے نبیؐ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرآنِ پاک سے تعلق کی بدولت بعض لوگوں کو عروج عطا فرمائے گا اور بعض کو قرآن سے تعلق چھوٹ جانے کے باعث ذلت و پستی میں گرا د ے گا۔‘‘ (’’مسلم ‘‘ حدیث 817 )وہ ایک آزاد غلام تھا۔ نہ جاہ ، نہ مال ، نہ حسب و نسب اور نہ ہی معاشرہ میں کوئی خاص مقام اور مرتبہ۔ مگر قرآن حکیم کی بدولت اللہ تعالیٰ نے عبدالرحمن بن ایزی کو یہ مقام عطا فرمایا کہ اہل مکہ پر ان کو گورنر مقرر کیا گیا۔ ان کا مقام اور مرتبہ حضرت علیؓ کی نگاہ میں یہ تھا کہ انہوں نے اپنے عہدِ خلافت میں انہیںخراسان کا گورنر متعین کیا تھا۔ قرآنِ حکیم کی سورۃ ’’نور‘‘ آیت 55 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ان سے اللہ وعدہ کرتا ہے کہ انہیں زمین میں حکومت عطا کرے گا۔‘‘ مزید سورۃ ’’رعد‘‘ اور سورۃ ’’انفال‘‘ کی ایک جیسی آیات میں فرمایا کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ (محمد اسلم چودھری، لاہور)