جمعہ 29 جون کو میں نمازِ جمعہ پڑھ کر گھر آیا تو سامان گاڑی میں رکھا جاچکا تھا اور بچے تیار تھے۔ اس نے مجھے پانچ لفافے دے کر کہا کہ یہ لفافہ جس پر کپڑے دھونے والی ماسی کا نام لکھا تھا اس میں اس کی تنخواہ ہے اور اسے یکم کو دے دینا۔ دوسرے لفافے میں صفائی والی کے پیسے تھے اور تیسرے میں 2570 روپے تھے ۔ کہنے لگی کہ اس مہینے صوفے خریدے ہیں لہٰذا تنخواہ میں سے یہی کچھ بچا ہے اسے خرچ نہ کردینا آپ پیسے اُڑا دیتے ہیں ۔ یہ میری اس مہینے کی بچت ہے ۔ آج پندرہ سال گزرنے کے باوجود وہ لفافہ اور وہ پیسے اسی طرح محفوظ ہیں جنہیں آج تک میں نے خرچ کیا اور نہ ہی خیرات میں دینے کی ہمت ہوئی کیونکہ یہ میرا اور اس کا آخری وعدہ تھا۔باقی دو پلاسٹک کے بڑے بڑے لفافوں میں استعمال شدہ کپڑے تھے اور مجھے کہا کہ یہ دونوں بھی ماسیوں کو دے دینا ۔ پھر اپنے پرس سے سیف کی چابیاں نکال کر میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد آپ ہی سنبھالیں اور کوئی گھر داری بھی سیکھ لیں ۔ میں نے بچوںکو پیار کیا اور اس وعدے کے ساتھ لاہور روانہ کیا کہ دس دن بعد میں بھی چھٹی لے کر آجاؤں گا پھر مری، مظفر آباد اور راولا کوٹ چلیں گے۔
ان دنوں میرے پاس دو ڈرائیور محمد سلطان اور عبد الخالق تھے ۔اس روز عبد الخالق مرحوم انہیں لاہور چھوڑنے جا رہا تھا کہ قادرپور راواں کے قریب شدید آندھی کی وجہ سے ٹریفک رک گئی تو ڈرائیورسے کہنے لگیںواپس چلتے ہیں۔ غفار احمد گھر میں اکیلے ہوں گے ،آج لاہور جانے کو جی نہیں چاہتا۔ڈرائیور نے گاڑی واپس ملتان کی طرف موڑی تو کہنے لگیں چلو لاہور ہی چلتے ہیں ۔ خانیوال کے قریب شدید بارش شروع ہوگئی تو دوبارہ ڈرائیور سے کہا گاڑی موڑو اور ملتان چلو ، ایک مرتبہ پھر گاڑی کا رخ ملتان کی طرف تھا تو ارادہ بدلا اور کہا لاہور ہی چلتے ہیں ، بالآخر تقدیر اسے لاہور لے گئی۔یہ میری اس سے آخری ملاقات تھی۔اس ملاقات سے بہت دن پہلے ایک دن لان میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے تو اُڑتی چڑیا کو دیکھ کر کہنے لگی کسی دن میں نے بھی ایسے ہی اُڑ جانا ہے ۔ کبھی پوچھا کرتی بچے بڑے کب ہوں گے یہ بڑے کیوں نہیں ہورہے ۔ایک دن چائے پیتے ہوئے کہنے لگی آپ بچے کیسے سنبھالیں گے آپ کو تو چائے بھی بنانی نہیں آتی ویسے مردوں کو بھی گھر داری آنی چاہئے ۔
بدھ 11جولائی کو میں جس ٹی وی چینل پر ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز تھا اس کے زیر اہتمام بھکر میں کھلی کچہری تھی اور موجودہ ڈی آئی جی اسلام آباد چودھری سلیم تب بھکر میں ڈی پی او کے طور پر ہمارے میزبان تھے۔ دیر سے فارغ ہوئے اور رات ڈیڑھ بجے کے قریب واپسی پر نواب ہوٹلچائے پینے رکے تو میں نے فون پر اس سے طویل بات کی اور بتایا کہ میں کل صبح گیارہ بجے تک لاہور پہنچ جاؤں گا اور کھانا کھا کر مری چلیں گے کیونکہ تیاریاں مکمل تھیں ۔میں گیارہ بجے لاہورتو پہنچا مگر مری جانے کیلئے نہیں بلکہ اسے زندگی کے آخری سفر پر روانہ کرنے کہ اسی صبح نمازِِ فجر کے وقت اسے دل کادورہ پڑا اور وہ اپنے والد کی گود میں سررکھے سفرِِ آخرت پر روانہ ہوگئی ۔ لاہور پہنچا تو تینوں بچے بھاگتے ہوئے آئے اور میرے ساتھ لپٹ گئے کہنے لگے ماما تو فوت ہوگئی ہیں اور پاپا سامان تیار ہے مری کب جانا ہے۔ میں نے انہیں بمشکل ساتھ لیا اور انہیں گھر کے اندر لے جاکر کہا کہ آج آخری مرتبہ اپنی ماں کو جی بھرکر دیکھ لو پھر زندگی میں یہ چہرہ آپ کو دوبارہ نظر نہیں آئے گا۔ وہ چند منٹ شدت سے روئے اور پھر وہی سوال کہ مری کب جانا ہے مامانے پیکنگ کررکھی ہے۔ ان معصوموں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کے سر سے وہ سایہ اُٹھ چکا ہے جس کا اللہ نے دنیا میں کوئی متبادل نہیں رکھا ۔
وقت کے ساتھ ساتھ انہیں اندازہ ہوتا گیا کہ وہ کیا کھو چکے ہیں ۔ ایک دن میری چھوٹی بیٹی جسے میں ’’پھولوں جیسی‘‘ کہتا ہوں۔ ضد کرنے لگی کہ میں نے ماما کے ساتھ رہنا ہے ۔ میں نے پوچھا کیسے ؟کہنے لگی آپ اللہ کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ پلیز ماما کی روح دے دیں ، پھر ہم مٹی سے ماما کی ساری چیزیں نکالیں اور ان میں روح ڈال کر گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آئیں گے اور ان کے ساتھ رہنے لگ جائیں گے۔ایک دن کہنے لگی آپ مونچھیں کٹوائیں ماما کی مونچھیں نہیں ہوتیں۔ پھر ایک دن سوتے ہوئے قینچی لیکر میری مونچھیں کاٹنے لگی تو قینچی میری ناک میں ڈال دی جس سے میں ہڑ بڑا کر اُٹھا ، پھر وہی ضد کہ مونچھیں کاٹیں ۔ ایک دن بڑی بیٹی نے کہا آپ غلط کہتے ہیں کہ ماما ہم سے پیار کرتی تھیں وہ خود تو جنت میں مزے کررہی ہیں اور ہمیں دنیا میں چھوڑ کر بھاگ گئی ہیں ۔ سب کی مائیں بچوں کو لنچ باکس دے کر سکول بھیجتی ہیں ۔سارے بچے مزے مزے کے لنچ باکس لیکر آتے ہیں اور ہم بھوکے بیٹھے رہتے ہیں۔ماما ہم سے پیار کرتیں تو کیا اس طرح بھاگ جاتیں ؟ میں نے اس سے کہا بیٹی آپ جو محسوس کرتی ہو ۔ کاغذ پنسل پکڑو اور ماں کے نام خط لکھ دو اور پھر چوتھی جماعت کی طالبہ نے جو کچھ لکھا وہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے باوجود کوشش کے میں اسے آج تک پورا نہیں پڑھ سکا۔
سچ ہے یہ جو گھروں میں ہمارے بھرم سنبھال کر بیٹھی ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے ہمیں گھروں کی کوئی فکر نہیں ہوتی یہ علم نہیں ہوتا کہ کونسی چیز کہاں پڑی ہے اور کہاں رکھنی ہے۔ موسم کے مطابق کونسے کپڑے سنبھالنے ہیں اور کونسے نکالنے ہیں۔ یہ جیسی بھی ہیں ان کی قدر کریں ویسے بھی پسلی سے پیدا کی جانے والی کو پسلی کے متوازی ہی رکھنا پڑتا ہے ۔بچیوں کے مسائل کیا ہیں یہ ایک ماں ہی جانتی ہے اورکہتے ہیں ’’جن بچیوں کی مائیں نہیں ہوتیں ان کے راز رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا‘‘ اور ان کی تربیت میں بعض ایسے خلاء بھی پیدا ہوجاتے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔کسی مفکر نے سچ کہا کہ ’’نعمت کی قدر تو بعد از زوال ہی ہوتی ہے۔‘‘