’’تذکرہ ٔ دلیپ ؔکمار،نشانِ پاؔکستان و ملکۂ برؔطانیہ !‘‘ (1)

معزز قارئین!۔ 7 جولائی کو، بھارت کے نامور فلمی ہیرو دلیپ کمار( محمد یوسف خان) کا انتقال ہُوا تو، نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ دُنیا کے کئی ملکوں میں اُن کے انتقال پر افسوس کا اظہار کِیا گیا اور مغفرت کے لئے دُعائیں کی گئیں۔ محمد یوسف خان 11 دسمبر 1922 کو، پشاور کے محلّہ خداداد میں لالہ غلام سرورخان کے ہاں پیدا ہُوئے تھے ۔ مرحوم 1935ء میں اپنے والدین کے ساتھ ممبئی منتقل ہوگئے تھے اور پھر کئی فلموں میں اداکاری شروع کردِی اور پوری دُنیا میں نام پیدا کِیا ۔ وہ 3 اپریل 2000ء سے 2 اپریل 2006ء تک بھارت کی "Rajya Sabha"۔ کے رُکن بھی رہے۔ اُنہیں بھارتی شہری ہونے کے باوجود پاکستان سے بھی بہت محبت تھی۔ 
صدرِ پاکستان عارف ، جناب عارف اُلرحمن علوی ، وزیراعظم پاکستان ، عمران خان چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی، ڈپٹی چیئرمین سینٹ مرزا محمد آفریدی، صدر پاکستان مسلم لیگ (ن ) میاں محمد شہباز شریف، سابق صدر آصف زرداری ، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، وزیر داخلہ شیخ رشید احمداور دوسرے وزراء فواد چودھری، فیصل جاوید ، شبلی فراز، فرخ حبیب ، صدر پاکستان مسلم لیگ (ق) چودھری شجاعت حسین ، سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی ، رُکن قومی اسمبلی چودھری مونس الٰہی اور بے شمار سماجی ، علمی ، ادبی اور فلمی شخصیات ( خواتین و حضرات ) نے بہت زیادہ رنج و غم کا اظہار کِیا۔ 
’’شوکت خانم ہسپتال کے فنڈز !‘‘ 
وزیراعظم عمران خان نے اپنے"Tweet" میں دلیپ کمار کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ دلیپ کمار میرے دَور کے بہترین اور "Versatile" ( ہرفن مولا ) اداکار تھے ۔ اُنہوں نے شوکت خانم ہسپتال کی "Fundraising" ( چندہ یا مالی امداد جمع کرنے ) میں حصہ لِیا ، مَیں اُن کی اِس امداد کو، کبھی نہیں بھول سکتا ، پاکستان اور لندن میں دلیپ کمار نے مشکل وقت میں فنڈ ریزنگ مہم میں اپنا حصہ ڈالا ۔ (مرحوم) دلیپ کمار ایک بہترین اداکار عاجز انسان اور عظیم شخصیت تھے ۔ غم کی اِس گھڑی میں ہم سب دلیپ کمار کے خاندان کے ساتھ ہیں ۔ 
’’ نشانِ پاکستان ! ‘‘ 
خبروں کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے دلیپ کمار کو1998ء میں ، ’’نشانِ پاکستان‘‘ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا ۔ معزز قارئین !۔ "Wikipedia" کے مطابق ’’ نشانِ پاکستان ‘‘ کا اجراء 19 مارچ 1957ء کو ہُوا۔ اُس وقت میجر جنرل (ر) سکندر مرزا صدر پاکستان تھے ۔صدر سکندر مرزا کے دَور میں 1958ء میں سابق گورنر جنرل و وزیراعظم خواجہ ناظم اُلدّین کو، ’’نشانِ پاکستان‘‘ دِیا گیااور 1958ء ہی میں صدر سکندر مرزا نے خُود ’’ نشانِ پاکستان‘‘ حاصل کر لِیااور 27 اکتوبر کو ، جب آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف کر کے جلا وطن کردِیا تو، (Wikipediaکے مطابق ) 1962ء میں حکومت ِ ؔپاکستان نے ،اُنہیں بھی ( چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، صدر محمد ایوب خان کو ) ’’ نشانِ پاکستان‘‘ سے نوازا۔ سوال یہ ہے کہ ’’ وہ، ’’ حکومت ِ پاکستان ‘‘ کس کی تھی ؟۔ 
’’ نشانِ پاکستان سے محروم طبقات ؟‘‘ 
حیرت ہے کہ ’’ آج تک پاکستان کے اندر یا بیرون پاکستان مقیم فرزندان و دُخترانِ پاکستان میں سے ، کسی بھی پاکستانی ، سائنسدان ، موسیقار ، گلوکار، سماجی کارکن، ماہر تعلیم، مصور یا ادیب کو ’’نشانِ پاکستان‘‘ سے نہیں نوازا گیا۔ کیوں نہیں ؟ یہ راز "Wikipedia" والوں کو بھی معلوم نہیں ہے؟۔ 
’’ ملکۂ برطانیہ اور دوسرے بادشاہ ! ‘‘ 
معزز قارئین !۔ یوں تو ، حکومت ِ پاؔکستان کی طرف سے ، (سب سے پہلے ) 9 نومبر 1959ء کو مرحوم شاہِ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کو ’’ نشانِ پاکستان ‘‘ سے نوازا گیا لیکن،حکومتِ ؔپاکستان کی طرف سے ، ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم ( Elizabeth II ) کو دو بار (1960ء اور 1997ء میں ) ’’ نشانِ پاکستان ‘‘ عطاء کِیا گیا ۔ کچھ اور بھی بادشاہ ہیں لیکن، میرا موضوع اِس وقت ملکۂ معظمہ برطانیہ محترمہ الزبتھ دوم ہی ہیں۔ دراصل مجھے اِس وقت برطانیہ کی ملکہ "Elizabeth I" (1558ء ۔1603ئ) اور اُن کے دَور کے (اور اب بھی ) عظیم شاعر ، اداکار، ڈرامہ نویس ، ڈرامہ نگار اور ماہرِ نفسیات ولیم شیکسپیئر "William Shakespeare" (1564ء ۔1616ئ) یاد آ رہے ہیں اور اُن کے حوالے سے ، شاعرِ مشرق ، مصّورِ پاکستان ، علاّمہ محمد اقبالؒ  بھی۔ 
’’شیکسپیئر !‘‘ 
 1924ء کو، شائع ہونے والی ’’ بانگ ِ درا‘‘ میں علاّمہ اقبالؒ کی ’’ شیکسپیئر ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم شائع ہُوئی تھی جو، اب بھی ، علم و ادب ، سیاست اور تاریخ سے دلچسپی لینے والے خواتین و حضرات بے حد دلچسپی لیتے ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ نے فرمایا کہ …
’’ شیکسپیئر ‘‘ 
’’ شفَقِ صبح کو دریا کا خرام آئینہ! 
نغمۂ شام کو خاموشیِ شام آئینہ!
…O…
برگِ گُل آئنہ عارضِ زیبائے بہار!
شاہدِ مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ!
…O…
حُسن آئینہ حق اور دل آئینہ حُسن! 
دلِ انساں کو ترا حْسنِ کلام آئینہ!
…O…
ہے ترے فکرِ فلک رس سے کمالِ ہستی !
کیا تری فطرتِ روشن تھی مآلِ ہستی !
…O…
تجھ کو جب دیدۂ دیدار طلب نے ڈھُونڈا!
تابِ خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا!
…O…
چشمِ عالَم سے تو ہستی رہی مستور تری !
اور عالَم کو تری آنکھ نے عْریاں دیکھا !
…O…
حِفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا !
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا !
…O…
معزز قارئین !۔ شارح علاّمہ اقبالؒ ، مولانا غلام رسول مہر ؒ نے لکھا ہے کہ ’’ جب علاّمہ اقبالؒ نے یہ نظم لکھی تو، یورپ میں دُنیا کے اکابر سے شیکسپیئرؔکی نظمیں لکھوانے کی ایک تحریک جاری ہُوئی تھی اور اُن نظموں کا انگریزی میں بھی مجموعہ شائع ہُوا تھا !‘‘ ۔
ولیم شیکسپیئر کا قول ( اُس کی ایک نظم کا حصہ ) ہے کہ ’’ساری دُنیا ایک "Stage" ( تماشا گاہ ) ہے اور دُنیا کے تمام مرد اور عورتیں اداکار ، کہ ، اُن کے پاس آنے اور جانے کا وقت ہے اور ہر آدمی / عورت اپنے وقت میں مختلف کردار ادا کرتا / کرتی ہے !‘‘۔ معزز قارئین !۔دلیپ کمار دُنیا کے سٹیج پر نہ صِرف ہیرو بلکہ ہر قسم کے کردار ادا کر کے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ فارسی لفظ ’’ نشان ‘‘ کے معنی ہیں ۔ ’’ نشانی ، علامت ، فوج کا عَلم ، لشکر کا جھنڈا اور بادشاہ کا فرمان‘‘۔باقی باتیں کل کروں گا ۔
  (جاری ہے ) 

ای پیپر دی نیشن