جوں جوں گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے توں توں آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں رونق اور تیزی آتی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے وفاقی وزراء تو پہلے ہی انتخابی مہم کے سلسلہ میں آزادکشمیر میں موجود تھے، گذشتہ 2/3 دن سے بلاول بھٹو بھی فعال نظر آئے ، مریم صفدر بھی دو جلسہ کر چکی ہیں۔ اس وقت چار بڑی سیاسی جماعتیں، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور مسلم کانفرنس انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم جماعت اسلامی کے علاوہ متعدد آزاد اُمیدوار بھی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کبھی کبھی عبدالرشید ترابی کی سیٹ جیت جاتی ہے باقی اللہ کا فضل ہی ہے۔ مسلم کانفرنس ایک زمانہ میں مقامی لحاظ سے سب سے بڑی سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی۔ اس کے بانی سردار عبدالقیوم ایک زیرک سیاستدان تھے کہ جن کی پذیرائی پاکستان میں بھی تھی۔ وہ بے داغ، دیندار اور نیک شخص کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اس کے برعکس ان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان ویسی شہرت نہ حاصل کر سکے۔ 85ء کے غیر جماعتی انتخابات میں اِدھر جب محمد خان جونیجو حکومت تشکیل پائی تو محترم خاقان عباسی وفاقی وزیر پیداوار تھے، جو سانحہ اوجڑی کیمپ کی نذر ہوئے ان کے بیٹے زاہد خاقان عباسی بھی ان کے ہمراہ تھے جو شدید زخمی ہوئے، طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت زاہد عباسی کو خاقان عباسی اپنے سیاسی جانشین کے طور پر تیار کر رہے تھے۔ اس زمانہ میں سردار عتیق احمد خان زاہد عباسی کے پاس گئے اور بتایا کہ آزاد کشمیر کی سیاست میں ہمارا کردار بہت اہم ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہم مالی لحاظ سے کمزور ہیں چنانچہ ہماری مدد کی جائے۔ زاہد نے والد صاحب سے بات کر کے آزاد کشمیر میں لاتعداد سیمنٹ ایجنسیاں عتیق کو الاٹ کیں اس طرح عتیق احمد خان کی سیاست کو نیا رخ ملا ۔ پھر چل سو چل، خود بھی وزیراعظم رہے مگر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ الیکشن کے زمانہ میں دھیر کوٹ میںنظر آتے ہیں باقی سارا عرصہ راولپنڈی میں پرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔ چنانچہ حالیہ انتخابات میں شاید چند سیٹیں حاصل کر پائیں۔ موجودہ انتخابات میں تحریکِ انصاف کے بعد پہلے دوسرا نمبر ’’ن‘‘ کا آ رہا تھا مگر اب وہ تیسرے نمبر پر جا چکی ہے۔ مریم صفدر کے جلسوں کے آنے کے بعد ان کی پوزیشن کیا رخ اختیار کرے گی وہ سن کچھ سامنے نظر آرہا ہے۔ راجہ فاروق حیدر نہایت عمدہ شخصیت ہیں۔ خاندانی اور محبِ وطن ضرور ہیں مگر وہ کارکردگی کے ہاتھوں مار کھا رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی ہے، بدقسمتی سے ان کے پاس اس وقت کوئی قد آور شخصیت ہی نہیں جو اچھی قیادت کے لیے موزوں ہو۔ ماضی میں یہی دیکھنے میں آیا کہ جس سیاسی جماعت کی پاکستان میں حکومت ہو وہی آزاد کشمیر کے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اس بار بھی تقریباً ایسا ہی دیکھنے میں مل رہا ہے۔ بیرسٹر سلطان محمود پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔ بیرسٹر صاحب باہر کے پڑھے لکھے، روشن خیال اور بہترین سیاستدان ہیں۔ ایک زمانہ میں ان کی (خاندانی) سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ان کو پسند کرتی تھیں، انہی کی خواہش پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور آزاد کشمیر پارٹی کے صدر بنا دئیے گئے۔ بی بی شہید ہر بڑے جلسہ میں انہیں خصوصی طور پر ساتھ لے کر جاتیں، بیرسٹر سلطان مقرر بھی بہت عمدہ ہیں، ہمیشہ بی بی کی تقریر سے پہلے ان کی تقریر رکھی جاتی اور پنڈال خوب گرما دیتے۔بی بی جب بیرون ممالک باالخصوص برطانیہ جاتیں تو بیرسٹر سلطان کو پہلے لابنگ کے لیے بھیج دیا جاتا اور یہ ہمیشہ عمدہ پرفارمنس دینے میں کامیاب ہوتے۔ انہی کی یہی خصوصیات دیکھ کر عمران خان نے انہیں پارٹی جوائن کرنے کی دعوت دی، نہ صرف آزاد کشمیر پارٹی کا صدر بنایا جبکہ یہ وعدہ بھی ہوا کہ آئندہ انتخابات جیتنے پر انہیں ہی وزیراعظم بنایا جائے گا۔ جس نشست سے وہ الیکشن لڑ رہے ہیں گو مقابلہ سخت ہوگا لیکن تجزیہ نگار یہی بتا رہے ہیں کہ ان کی جہت کے روشن امکانات ہیں اور وزارتِ عظمیٰ تک بآسانی پہنچ جائیں گے۔ تاہم یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے وہ یہ کہ سردار تنویر الیاس بھی باغ سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگر وہ جیت جاتے ہیں اور دوسری طرف آزاد اُمیدوار انتخابات میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں تو پھر پیسہ چلے گا اور اس صورت میں سردار تنویر الیاس اپنے لیے لابنگ کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں مظالم، قتلِ عام اور آئین میں ترامیم کر کے جو اقدامات بھارت نے کیے ہیں وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ آزاد کشمیر میں وزیراعظم پڑھا لکھا اور بین الاقوامی فہم رکھنے والا ہو۔ اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں نہ صرف تعلقات رکھے جبکہ مقبول بھی ہو۔ اس لحاظ سے ہم سمجھتے ہیں کہ فیصلہ کن مرحلہ پر عمران خان اپنے وجدان کو استعمال کر کے اچھا اور بہترین فیصلہ کریں گے۔ دوسری طرف جس طرح عمران خان سیاحت پر زیادہ زور دے رہے ہیں اگر ان کی سپورٹ آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم کو حاصل رہی تو صرف ٹورازم کو پروموٹ کر کے یہاں کا نقشہ ہی بدلہ جا سکتا ہے اور یہ خطہ مالی لحاظ سے بھی بہت مضبوط ہو سکتا ہے۔ بہرحال ہم تو کشمیری بھائیوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر سکتے ہیں، ووٹ دینا، حقِ حکمرانی دنیا اور اپنے مستقبل کے لیے بہتر سوچ رکھنا ان کا ذاتی حق ہے، اللہ کریم سے دعا ہے کہ جو ہو آزاد کشمیر، پاکستان اور عوام کے لیے بہتر ہو۔ آمین