مرکزی رئویت ہلال کمیٹی کے سابق سنیئر ممبر معروف عالم دین حضرت مولانا خلیل الرحمان قادری رحمتہ اللہ علیہ کئی ماہ گردوں کے امراض میں مبتلا رہنے کے بعدداغ مفارقت دے گئے ۔راقم مرحوم سے تھوڑے ہی عرصے میں بڑا ہی قلبی تعلق استوار ہوا ہمیشہ ہمارے مابین امت کی زبوں حالی اور پاکستان کے حالات حاضرہ بارے تبادلہ خیال ہوتا آپ وقت کی ضرورت کے مطابق سیر حاصل گفتگو فرماتے جس سے ہمیشہ نئے نئے عنوانات اور جہتوں کا سامنا ہوتا ۔آپکی وفات سے چند روز قبل برادر مکرم سلیم ناز کے ہمراہ بیمار پرسی کے حوالے سے ملاقات کیلئے جانا ہوا جہاں ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ حال میں بیماری کے باوجود جاری علامہ خلیل الرحمان قادری کی علمی فلاحی کاوشوں کا تذکرہ ہوتا رہا ۔
علامہ خلیل الرحمان قادری مرحوم بچپن اور اوائل سے ہی دین اسلام کی ترویج و اشاعت کی طرف راغب تھے۔ دینی علوم کے حصول کا سفر بھی ساتھ ساتھ جاری رہااور حصول روزگار کیلئے ابتداً بینکنگ کے شعبہ کے ساتھ وابستگی اختیار کی جبکہ ساتھ ساتھ مذہبی و سماجی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتے رہے۔ ادارہ منہاج القرآن میں ادارے کے قیام کے بعد شمولیت اختیار کی۔ 1987 ء کو بینکنگ کے شعبے میںاپنے دس سالہ کیرئیر کو اس وقت خیر باد کہہ ڈالا جب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے انہیں ادارہ منہاج القرآن کے ساتھ ہمہ وقتی بنیادوں پر وابستہ ہونے کی دعوت دی۔ وہ ڈاکٹر صاحب سے متاثر تھے اس لئے اس دعوت کو بلا تردد قبول کر لیا۔ ادارہ منہاج القرآن میں کل وقتی بنیادوں پر چار سالہ قیام کے دوران مختلف ذمہ داریاں انکے حصہ میں آئیں حضرت علامہ مرحوم نے بخوبی نبھائیں۔اور بعد ازاں 1989 ء میں ادارہ منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس بڑی ذمہ داری کے بعد ادارہ میں علامہ خلیل الرحمان مرحوم تنظیمی ،انتظامی اور تحریکی سرگرمیوں کے حوالے سے فیصلہ سازی کے معاملات میں ڈاکٹر صاحب کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے شبانہ روز محنت سے ادارہ منہاج القرآن کو تحریک کی صورت میں منظم کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا۔ جب جب ادارہ منہاج القرآن کا تذکرہ ہوتا وہ ہمیشہ عالم اسلام کا منفرد نام ڈاکٹر طاہر القادری اور محقق العصر استاد الاساتذہ مصنف کتب کثیرہ قبلہ مفتی محمد خان قادری رحمتہ اللہ علیہ کا جداگانہ الفاظ کے ساتھ ذکر خیر فرماتے ۔ خلیل الرحمان قادری مرحوم پاکستان عوامی تحریک کے بانیاںمیں شامل تھے۔ 1991ء کے آوخر میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ چنداختلافات کے باعث خاموشی سے ادارہ منہاج القرآن سے الگ ہو گئے۔ایک نشست میں علامہ محمد خلیل الرحمان مرحوم نے بتایا تھا کہ ادارہ منہاج القرآن سے انکے ساتھ علیحدگی اختیار کرنے والوں میں نامور اور ثقہ عالم دین محقق العصر مفتی محمد خان قادری رحمتہ اللہ علیہ بھی شامل تھے جن کے ساتھ علامہ مرحوم کا منہاج القرآن تحریکی دور میں گہری محبت ، دوستی اور خلوص کا رشتہ استوار ہو ا جو تادم مرگ ہر طرح کے اخلاص و مودت کے ساتھ قائم و دائم رہا۔دونوں عالی مرتبت شخصیات کے درمیان ادارہ منہاج القرآن سے علیحدگی کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں میں کمی نہ آئی بلکہ ایسا مضبوط رشتہ استوار ہوا کہ انہوں نے خدمت دین کے حوالے سے مشترکہ جدوجہد کرنے کا عزم کیا۔علامہ خلیل الرحمان قادری نور اللہ مرقدہ نے ذکر کیا کہ جامعہ اسلامیہ کی بنیاد رکھنے کے بعد تواتر کے ساتھ محقق العصر مفتی محمد خان قادری رحمتہ اللہ علیہ سے نشستیں ہونے لگیںاس دوران تحصیل علم کا سفر بھی جاری رہا۔مولانا محمد خلیل الرحمان قادری مرحوم کی متعدد موضوعات پر تحریریں کتابچوں کی شکل میں جبکہ تجزیاتی تبصرے قومی اخبارات کی زینت بنتے رہے اسی طرح تواتر کے ساتھ قادری مرحوم کی اپنی ہی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ سوئے حجاز میں بھی شائع ہوتی رہیں۔ اس عرصہ میں وہ حضرت سلطان باہو ٹرسٹ کے انتظامی اور تعلیمی امور کی نگرانی بھی کرتے رہے۔اسلامی ، سماجی ،فلاحی خدمات کے جذبے سے سرشار مذکورہ بالا مصروفیات کے باوجود 2005 ء میںپاکستان میںحضرت سلطان باہو ٹرسٹ کے قائدین کے ساتھ مل کر ایک رفاہی تنظیم اسلامک ہیلپ کی بنیاد رکھی۔ دراصل یہ اسی کام کا تسلسل تھا جسے صاحبزادہ سلطان نیاز الحسن قادری نے برطانیہ سے بین الاقوامی سطح پر شروع کر رکھا تھا۔ پاکستان میں اس تنظیم کی نگرانی کی ذمہ داری انکے سپرد کی گئی۔ اس حیثیت میں انہوں نے پاکستان میں ناگہانی آفات کا شکار ہونے والے متاثرین کی بھر پور خدمت کی جو تا حال جاری ہے۔ انکی خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان آصف علی زرداری نے 2011 ء میں انہیں انسانی حقوق ایوارڈ سے نوازا ۔جبکہ 2بار آزاد جموں و کشمیر کے صدور راجہ ذوالقرنین نے 2007 ء جبکہ سردار یعقوب نے 2014 ء کو خصوصی ایوارڈز سے نوازا۔ اسی طرح مفتی محمد خان قادری کی سرپرستی میں تمام مسالک کے متفقہ پلیٹ فارم ملی مجلس شرعی کے ساتھ مرکزی سیکریٹری کے طور پر بھی ہمہ وقت فعال اوروابستہ رہے اور اس پلیٹ فارم کو بیماری کے باوجود قلمی اور تحقیقی بھر پور معاونت فراہم کر تے رہے ۔آپ جامعہ اسلامیہ لاہور میں محقق العصر قبلہ مفتی محمد خان قادری رحمہ اللہ کے ہمراہ بطور ناظم اعلیٰ ایک عرصے سے ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔کہ اچانک گردوں کے امراض میں مبتلا ہونے کے باعث آپکی سرگرمیاں متاثر ہوگئیں لیکن قادری مرحوم حسب استطاعت یہ تمام خدمات اور ذمہ داریاں گھر پر رہتے ہوئے بستر علالت سے سر انجام دیتے رہے ۔ علامہ خلیل الرحمان قادری کی دینی مدارس کے اصلاح طلب پہلو اور مدارس کی خدمات پر مولانا مرحوم کی تحریریں مختلف اخبارات میں شائع ہو تی رہی ہیں۔ علامہ قادری مرحوم یہ خواہش رکھتے تھے کہ انہیں یکجا کیا جائے گا اور وہ انہیں ضخیم کتاب کی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔اسلامی نقطہ نظر سے پاکستان کے حالات حاضرہ پر انکے افکار تازہ کے نام پر لکھے گئے اداریے بھی کتابی صورت میں زیر ترتیب ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ محمد خلیل الرحمان قادری کی جملہ کاوشوں کا تحفظ کیا جائے اور جو آپکا علمی اور تحقیقی مواد اشاعت کے مراحل میں ہے اس کی اشاعت کا اہتمام اور کوششیں کی جائیں۔ اس سب کی بڑی ذمہ داری انکے متعلقین اوربراہ راست مولانا مرحوم کے صاحبزادے محمد عاصم خلیل پر ہے کہ وہ اپنے مرحوم والد کیلئے صدقہ جاریہ بنتے ہوئے ہمہ وقت انکے علمی ،فلاحی اور سماجی امور کو احسن طریقے سے نبھانے کی سعی میں رہیں اللہ پاک برادر عاصم خلیل کامعاون و مدگار ہو دعا ہے اللہ تعالی مرحوم کو جنت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے آمین۔