سنت ابراہیمی ایثار کا درس

عید الاضحی ۔۔قربانی وایثار کا درس جاوداں

 آغا سید حامد علی شاہ موسوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 راہ خدا میں حضرت اسمٰعیلؑ کو قربان کرنے کا واقعہ دس ذو الحجہ کو پیش آیا اللہ نے یوم النحر یعنی قربانی کے دن کو حج کا مبارک ترین دن قرار دیا ہے۔ اس لئے تمام ملتِ اسلامیہ حضرت ابراہیم ؑکی اس آزمائش میں کامیابی کی یاد   میںعید مناتی ہے۔باپ کی قربانی و ایثار اور فرزند کی تسلیم ورضا کی داستان کو اللہ نے ابد تک قائم رکھنے کا انتظام فرمایا۔اور اس کے ہر ہر اقدام کو شعائر اللہ قرار دیتے ہوئے حج کی عبادات و واجبات میں شامل کردیا۔قربانی ہو یا تکبیرات یا کنکریاں مارنے کے ذریعے شیطانوں سے بیزاری کا اظہارہو اس داستان خلیل و ذبیح میں انسانیت کیلئے لاتعداد دروس پنہاں ہیں ۔
 جب حضرت اسماعیل 13برس کے ہوگئے تو ان کے والد گرامی خلیل خدا حضرت ابراہیمؑ نے ایک خواب دیکھا کہ انہیں خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے نور عین کو اپنے ہاتھ سے قربانی کرتے ہوئے  ذبح کردیں۔پہلی مرتبہ ’’شب ترویہ‘‘(آٹھ ذی لحجہ کی رات) یہ خواب دیکھا اور’’عرفہ‘‘ 9ذوای الحجہ اور 10ذوی الحجہ کی رات میںخواب کا تکرار ہوا۔ انبیاء ؑکے خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ کواس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کا حکم مل رہا ہے۔
 ابراہیم جو بارہا امتحان خداوندی کی گرم بھٹی سے سرفراز ہو چکے تھے، آتش نمرود میں بے خطر کود پڑے تھے ایک بار پھر آزمائش درپیش ہونے پر اپنے اس فرزند کی قربانی کیلئے تیار ہوگئے جس کے انتظار میں عمر کا ایک حصہ اللہ کے حضور گڑ گڑاکر دعائیںکیاکرتے تھے ۔عشق کی اس معراج پر عقل انسانی آج بھی حیران ہے۔حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے مخاطب کرکے فرمایا،ترجمہ:’بیٹا!میںنے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں،تمہاری کیا رائے ہے ؟‘باپ اللہ کے عشق میں ڈوبا ہوا تھا تو بیٹا بھی خلاق عالم کی آزمائش میں صبر و ایثار کا پیکر بنا نظر آتا ہے حضرت اسمٰعیلؑ نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے ماتھے پر آج بھی ثبت ہے۔انہوںنے کہا ،ترجمہ:  ’ابا جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اس کی تعمیل کیجیے ، انشاء  اللہ آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘۔ جس پردنیا کے نکتہ ور دانشمند آج تک ششدرو حیران ہیں ۔
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی 
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی 
شیطان جس نے اللہ سے وقت معلوم تک صراط مستقیم پر بیٹھ کر انسانوں کو راہ خداوندی سے بھٹکانے کی مہلت لے رکھی تھی سے یہ منظر تسلیم و رضا دیکھا نہ گیا۔ شیطان نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ حضرت اسماعیل و حضرت ہاجرہ کو بہکا سکے ۔ آخر میں حضرت ابراہیم ؑکے پاس آیا ۔حضرت  ابراہیمؑ نے نور ایمان اور نبوت کے پر تو میں اسے پہچان لیا: چلا کر کہا :’’’دور ہوجا اے دشمن خدا‘‘  حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم پہلے مشعرالحرام میں آئے تاکہ بیٹے کی قربانی دیں ،تو شیطان ان کے پیچھے دوڑا۔ وہ جمرہ اولیٰ کے پاس آئے۔ شیطان وہاں بھی ان کے پیچھے لگ گیا۔ ابراہیم نے سات پتھر اٹھا کر اسے مارے۔ جس وقت دوسرے جمرہ کے پاس پہنچے تو پھر شیطان کو دیکھا ، دوبارہ سات پتھر اسے مارے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ میں آئے تو سات اور پتھراسے مار کر  ہمیشہ کے لئے اپنے سے مایوس کردیا۔وہ لمحہ آگیا جب کائنات کی نبضیں تھمنے لگیں ۔اور قرآن نے یوں منظر کشی کی ترجمہ:’’اور (باپ) ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا‘‘ بیٹے کی پیشانی خود اس کی فرمائش پر زمین پر رکھی کہ مبادا ان کی نگاہ بیٹے کے چہرے پر پڑے اور پدری جذبات  فرمان خدا کے اجراء میں مانع ہوجائیں۔ بہرحال حضرت ابراہیم ؑنے بیٹے کے گلے  پرقوت اور سرعت کے ساتھ چھری پھیر دی جب کہ ان کی روح ہیجان میں تھی اور صرف عشق خدا ہی انہیں اپنی راہ میں کسی شک کے بغیر آگے بڑھا رہا تھا۔
یہ وہ منزل ہے کہ جہاں قرآن ایک مختصر اور معنی خیز جملے کے ساتھ انتظار کو ختم کرتے ہوئے حضرت ابراہیم کی کامیابی کا اعلان کردیتا ہے،ترجمہ:  اس وقت ہم نے ندا دی۔۔۔اے ابراہیم ! خواب میں جو حکم تمہیں دیا گیا تھا وہ تم نے پورا کردیا۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں ۔خداوند عالم ایک باپ ؑکے جذبہ قربانی کو شرف قبولیت عطاکرنا چاہتے تھے اسی لئے ایک بہت بڑا مینڈھا بھیج دیاتاکہ بیٹے کی جگہ اسے قربان  پاکرابراہیمؑ دنیا میںاپنی سنت چھوڑ جائیں۔اسلام کی راہ میں دی گئی نبی کریم محمد مصطفی ؐ کی ہر قربانی کو یاد رکھنا مسلمانان عالم کیلئے واجب ہے ، اللہ کے نزدیک قربانی کا گوشت نہیں دلوں کا تقوی قبولیت کا درجہ رکھتا ہے ۔اس لئے عید قربان ہمیںشیطانوں اور شیطانی ہتھکنڈوں سے نجات کا بھی درس دیتی ہے ۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن