جس نے بھی اپنی زندگی کسی بڑے کام کیلئے وقف کی خود کو دوسروں کیلئے وقف کئے رکھا اسکی زندگی روشنی میں ڈھل جاتی ہے وہ روشنی جو سورج کے نظر آنے سے مشروط نہیں رہتی بس وہ ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں گلوب کا احاطہ کئے رکھتی ہے۔ محمد طفیل جنہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق نے محمد طفیل نقوش کا نام دیا تھا ایسے ہی لوگوں میں سے ایک تھے ۔ جب انکی برسی کی تاریخ آتی ہے تو انکی پھیلائی ہوئی روشنی اور تیز ہو جاتی ہے جس میں ہمیں انکے انگنت کارنامے نظر آتے ہیں تو اردو ادب کیلئے پاکستان میں کام کرنے والوں کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے کام سے کئی بار ایک زمانے کوچونکایا مثلا جب وہ غالب نمبر کیلئے خود غالب کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بناتے ہیں تو پوری اردو دنیا میں تہلکہ مچ جاتا ہے اور بھارتی پارلیمنٹ تک میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر غالب کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ بھارت میں دریافت ہواہے تو یہ پاکستان کیسے پہنچا اور کیسے پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا ۔ 14اگست1923 کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے محمد طفیل سے قدرت نے اردو لفظیات کے حوالے سے ایک بڑا کام لینا تھا سو اس کا انتظام آغاز میں ہی ایسے کیا کہ انہوں نے الفاظ کو باہر سے خوبصورت انداز میں لکھنے کا فن سیکھنے کیلئے ممتاز خطاط تاج زریں رقم کی شاگردی اختیار کی ۔ پھر لفظوں کی اندرونی خوبصورتی کو عام کرنے کیلئے ان کی منصوبہ بندی کا آغاز ہو گیا۔ اس سلسلے میں پہلے لطیف فاروقی کے ساتھ مل کر مکتبہ شعر و ادب کی بنیاد رکھی پھر اپنا ادارہ فروغ اردو قائم کیا۔ ان کے کام کی اٹھان ہی ایسی تھی کہ کلاسیکل ناول امرائو جان ادا اور شوکت تھانوی کے مزاحیہ ناولوں کی اشاعت سے کام کا آغاز کیا اسی دوران نقوش کے نام سے مارچ 1948 میں جریدے کی اشاعت بھی شروع کر دی ۔ پہلے شمارے میں احمد ندیم قاسمی کو اس کا مدیر بنایا اور آغاز میں ہی کڑے امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے کھول دو کی اشاعت اہل حکم پر گراں گزری اور نقوش پر پابندی لگ گئی ۔ پابندی ہٹنے کے بعد پروفیسر وقار عظیم کو مدیر بنا کر دوبارہ اشاعت شروع کی مگر تسلی نہ ہوئی تو خود ادارت سنبھالی اور پھر اردو دنیا نے دیکھا کہ محمد طفیل ادبی جریدوں کی دنیا میں سب سے بلند قامت کے طور پر سامنے آنے لگے ۔پھر ایک قدم آگے بڑھ کر انہوں نے روائتی ادبی پرچے شائع کرنے کی بجائے کسی ایک موضوع پر خصوصی نمبروں کا ایسا سلسلہ تعارف کرایا کہ برصغیر پاک وہند میں نہ پہلے اس کی کوئی مثال تھی اور نہ بعد میں اب تک ایسی کوئی مثال سامنے آ سکی ہے۔1951 ء میں مدیر کی حیثیت سے اپنے نقوش کا چارج سنبھالنے کے بعد سے 1981ء تک ان کی ادارت میں تقریبا ہر برس دو برس بعد کسی نہ کسی موضوع پر ایسا خصوصی نمبر سامنے آ تا رہا کہ پڑھنے والوں کی آنکھیں حیران اور دل دھڑکتے رہ جاتے سارا کام اتنی راززداری سے مکمل ہوتا کہ خصوصی نمبر کے سامنے آنے پر لوگوں پر کھلتا کہ اتنی نادر نگارشات اور عالمی سطح کی اہمیت کا مواد کیسے جمع ہوا۔ ممتاز مصور اورخطاط جناب اسلم کمال کا موقلم بھی نقوش کے حسن میں اضافے کا باعث بنا رہا ۔ انکے افسانہ نمبر پنج سالہ نمبر غزل نمبر شخصیات نمبر منٹو نمبر مکاتیب نمبر طنزو مزاح نمبر پطرس نمبر لاہور نمبر شوکت تھانوی نمبر آپ بیتی نمبر غالب نمبر میر تقی میر نمبر میر انیس نمبر اقبال نمبر ادبی معرکے نمبر اور رسول نمبر قران نمبر سمیت کتنے ہی مدیرانہ معرکے ہیں۔ ان کیلئے اپنے وقت کے بڑے بڑے قد کے لکھاریوں کی خدمات حاصل کرنا پڑی۔ خصوصی نمبر ایک سے زیادہ جلدوں پرمشتمل تھے ۔ بعض نمبروں کی تو تاریخی اہمیت اتنی ٹھہری جیسے لاہور نمبر کہ جسے حکومت وقت کے دانشور حکام کی ہدائت پر مسجد شہدا کی بنیاد میں اس لئے محفوظ کیا گیا کہ آنے والے نسلیں برسوں بعد لاہور کو اسکے صحیح خد و خال میں پہچان سکیں ۔ نقوش کا رسول ﷺ نمبر ایک درجن سے زائد جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس نمبرکے حوالے سے مجھ خاکسارکا بھی کچھ حصہ رہا ۔ حکومت وقت نے بھی اسی نمبر کے اعزاز میں اعلان کیا تھا کہ ہر سال حکومت پاکستان بہترین تخلیق پر ایک لاکھ روپے کا نقد ایوارڈ دیا کریگی ۔ مدیر کی حیثیت محمد طفیل نقوش کی شخصیت کا صرف ایک پہلوہے اور اس پہلو میں میں انکے اداریے بجائے خود تخلیقی شہپارے ہیں ۔انہوں نے خاکہ نگاری میں اپنی الگ پہچان بنائی انکے خاکوں کی کتابیں جناب۔ آپ محبی ۔مخدومی ۔محترم ۔مکرم اردو ادب میں ہمیشہ یادرکھی جانے والی کتابیں قرار دی جاتی ہیں مرحوم محمد طفیل نقوش کی شخصیت کا ایک اور رخ ان کی اہل ادب کی خدمت کا تھا ۔ یہ خدمت انہوں نے ادیبوں کے تاریخی جمہوری ادارے پاکستان رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر انجام دی۔ انکے بعد ان کے بڑے فرزند جاو ید طفیل نے بھی انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس روائت کوقائم رکھا اور اب یہ سلسلہ ان کی پوتی فرح جاوید آگے بڑھا رہی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ جناب محمد طفیل کے جانشین جاوید طفیل نے ان کی قلمی جمع پونجی اور نقوش کی تمام اہم دستاویزات مسودات قلمی نسخے اورخصوصی نمبروں کی کئی جلدیں پاکستان کے تاریخی علمی ادارے یعنی گورنمنٹ کالج لاہور میں انکی یاد میں ایک خصوصی گوشہ کیلئے عطیہ کردی ہیں جہاں اردو ادب کے محققین ہمیشہ ان سے مستفیض ہوتے رہیں گے ۔
محمد طفیل نقوش کی یاد میں
Jul 10, 2022