سنت ابراہیمی ؑ کا پیغام اور اقتصادی سرگرمی

’’قربانی‘‘ عربی زبان کے لفظ’’قُرب‘‘ سے ہے، جس کا مطلب’’کسی شے کے نزدیک ہونا‘‘ ہے۔ شرعی اصطلاح میں قربانی سے مُراد’’عبادت کی نیّت سے ایک خاص وقت میں حلال جانور کو اللہ کی راہ میں قربان یا ذبح کرنا ہے۔‘‘گویا قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قُرب مقصود ہے۔عید قرباں کا فلسفہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر حکم رَبی کے آگے سر جھکانا۔ ہر سال ہم تجدید عہد بھی کرتے ہیں بحیثیت مسلمان ہمیں قربانی کے اصل مفہوم کو سمجھنا چاہئے، کیونکہ عیدالاضحی کا مفہوم اللہ کی راہ میں جانوروں کو قربان کر دینے سے ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس جذبے، احساس اور عہد پر پورے سال عمل پیرا رہا جائے تو ہمیں ذہنی اور رُوحانی آسودگی حاصل ہو سکتی ہے۔فقط جانور ذبح کرنے کے بجائے قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالی کی رضا حاصل کر سکیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعلی منصب عطا فرمایا ہے تو وہ اپنا منصب اقرباء پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق راحت کوپہچاننے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔ اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع دے سکتے ہیں تو اس ضرورت مند کی حسرتوں کاخون نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔کسی کو اللہ تعالی نے مال و دلت سے نوازا ہے تو اللہ تعالی کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی مخلوق کو دے کر اپنے مال اور گھرانے میں برکتیں اور اللہ تعالی کی رضا حاصل کریں۔ اگر کوئی اپنے سفید پوش رشتہ دار کی مدد کرے گا تو وہ اللہ کے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق دو گنا اجر پائے گا، ایک اجر صلہ رحمی کا اور دوسرا اجر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا۔عید الاضحٰی میں ہمیں صلہ رحمی کا پہلو مد نظر رکھنا چاہئے۔ دیگر ایام میں بھی صدقہ اور صلہ رحمی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے مواقع پر وضاحت سے فرمایا:’’صدقہ کرنے سے کبھی بھی مال میں کمی نہ ہو گی۔‘‘ 
 آیئے! سنت ابراہیمی کی ادا ئیگی کے حسین موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ راہ خدا میں ہر طرح کی قربا نی کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں گے،اپنی انا اور غرور کوخاک میں ملادیں گے۔ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا خیال کریں گے۔ ملت اسلامیہ کی سربلندی کے لئے ہمہ وقت مستعد و تیار رہیں گے۔ عالم اسلام پر کسی طرح کی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ جب جہاں جس وقت جس حال میں جیسی قربانی طلب کی جائے گے ہم بلا تذبذب وہچکچاہٹ پیش کرنے کے لئے خوشی خوشی آمادہ رہیں گے۔ہمارے اردگرد، قرب و جوار میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہے۔ فی زمانہ تو ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ کوئی خود آ کر ہم سے مدد کرنے کا سوال کرے۔ ہمیں خود ہی آگے بڑھ کر ایسے لوگوں کی مدد کرنا ہوگی۔ قربانی کا اصل مفہوم بھی یہی ہے کہ اپنے اندر جذبہ پیدا کریں، اپنی ضروریات کو محدود کریں، فضول خرچی اور دکھاوے سے پرہیز کریں تو بے وسیلہ لوگوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی قربانی ہے۔ کسی کے دُکھ اورتکلیف کو محسوس کرنا کسی کی پریشانی کو دُور کرنا اور اپنے حصے کی خوشیاں دُوسروں کی خالی جھولی میں ڈال دینا بھی قربانی ہے۔بے آسرا، بے سہارا، زمینی اور آسمانی آفات کی زَد میں آئے ہوئے لوگوں کی مالی اور جذباتی مدد کرنا۔ اللہ کی خوشنودی کی خاطر انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرنا بھی قربانی ہی ہے۔عید الاضحی نہ صرف ایک مذہبی تہوار ہے بلکہ عظیم اقتصادی اور فلاحی سرگرمیوں کا دن بھی ہے۔ جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس طرح اربوں روپے شہروں سے دیہی اور زرعی معاشروں میں منتقل ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں فروخت ہونے والے جانوروں کی قیمت کے حوالے سے کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم قربانی کے بعد جمع کی جانے والی کھالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں قربانی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کا اندازہ ہے کہ اس سال عید الاضحی پر تقریباً 35 لاکھ بڑے اور اتنے ہی چھوٹے جانوروں کی قربانی کی جائے گی۔پاکستان میں چھوٹے مویشیوں میں بکروں کو ترجیح اور قربانی دی جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس سال 35 لاکھ سے زائد بکرے ذبح کیے جائیں گے ۔ پاکستان میں ٹینری ایسوسی ایشن بھی بحران کا شکار ہے۔ بہت سی ٹینریز بند ہو چکی ہیں اور کئی ممالک کے پاس کئی سالوں کا ذخیرہ ہے اور فروخت نہیں ہو رہا۔ چمڑے کی عالمی صنعت گزشتہ چند سالوں سے بحران کا شکار تھی لیکن اب اس میں معمولی بہتری نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں چمڑے کی مصنوعات میں ایک فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن