’’سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی‘‘

Jul 10, 2022

عید الاضحٰی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم اور بے مثال قربانی کی یاد تازہ کرنے کیلئے تمام عالم اسلام میں دس ذی الحجہ کو بڑے جوش و جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ قربانی کا لفظ’قربان‘سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا جائے۔ عرف عام میں یہ لفظ جانور وںکوقربان کرنے کیلئے بولا جاتا ہے۔ اگر قربانی کا تصور اور فلسفہ قربانی نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔ عید قرباں اسلام کا دوسرا عظیم تہوار ہے جو اپنی اہمیت ، فضیلت ،معنویت کے حوالے سے منفرد شنا خت اور خصوصیات کا حامل ہے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا عمل ایک طرف قرب خداوندی رضائے الہی اور پروردگار عالم کی خوشنودی کا با عث ہے تودوسری طرف ہر قدم پر سرفروشی، قربا نی، جاں نثاری اور صبر وشکر سے لبریز ہونے کے پیغام سے سرشار ہے، قربا نی ایک ایسا عمل ہے جو امت مسلمہ کی طرح سابقہ امتوں کی متنوع عبادات کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں ہمارے لیے بڑی نصیحت ہے کہ ہم نے بھی یہی اقرار کیا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا نہیں ہے اللہ کا ہے۔ ہم اللہ کے حکم پر چلیں گے۔ہم جس طرح اپنے جانوروں کوقربان کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کو بھی قربان کردیں گے، تاکہ اختلاف، انتشار بغض و حسد، دشمنی، مکر و فریب اور حق تلفی وجاہ طلبی کے ذریعہ انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ عظمت و بلندی کا جو معیار قرآن مجید نے بتایا ہے، اسے ہم اپنی زندگی میں سجا بسا لیں۔ 
اس عید کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت اور وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ قربانی کا مقصد ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تواس بات کااظہار ہے جوہمیں ہر سال تسلیم و رضا، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے۔آداب فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔
اس طرح حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم کے سامنے اپنا سر جھکا دیا۔اسی طرح ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے بچوں کو بھی اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرنے کی تاکید کرتے رہیں۔انہیں معاشرے میں بسنے والے دیگر افراد کے ساتھ حسن سلوک ہمدردی اور پیار سے پیش آنے کا درس دیں۔ ان کی خوشی غمی میں شریک ہونے اور ان کی خاطر اپنے جل کو قربان کرنے کا سبق دیاجائے۔جانور کی قربانی تو محض ایک علامت ہے اصل قربانی تو یہ ہے کہ حکام الہٰی اور شرعیت کو پورا کیا جائے اپنی نفسانی اور دنیاوی خواہشات کو قربان کیا جائے اپنی سہولیات کو نظر انداز کر کے اپنے مسلمان بھائیوں کا خیال رکھا جائے۔ اپنی ذات کو تقوی اورایثار کا پیکر بنایا جائے۔
’قربانی‘ لفظ ہماری پوری زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ اس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر اور مختلف انداز میں پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصدہوتاہے۔ مقصد جتناعظیم ہوتاہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔ خاتون خانہ اپنی پوری زندگی اپنے گھر والوں کے لئے قربان کر دیتی ہے۔ گھر والوں کے لئے اپنا آرام تک قربان کر دیتی ہے۔ دوسری جانب خانہ دار اپنے گھر والوں کے لئے دن رات محنت کرتا ہے۔ محنت و مشقت کرکے اپنے گھر والوں کو سکون فراہم کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہر کوئی کسی نہ کسی طرح کی قربانی دیتا ہے۔ عیدالاضحی اسی قربانی کے جذبے کو بیدار کرتا ہے۔ اس پرمسرت موقع پر اپنے عزیز اور غرباء کو اپنی خوشی میں شامل کر لیجئے۔
 اکثر عید قرباں کے موقع پر صفائی کی جانب غفلت برتی جاتی ہے۔ ایسا بالکل نہ کریں۔ عید کے دن چونکہ بعض علاقوں میں گوشت کی بہتات ہوتی ہے اس لئے ذرا سی لاپروائی سے گندگی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، جس سے طرح طرح کی بیماریاں و تعفن پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ لہٰذا صفائی کی جانب خاص توجہ دیں۔ گھر کے اندر اور گھر کے باہر بھی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ہم میں بہت سے لوگ غربا، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل، مسالحہ خریدنے کیلئے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انہیں ددگنی خوشی ملے گی۔ اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔لہذا عید الاضحی پر فلسفہ قربانی اور قربانی کی اصل روح کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی 
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی 

مزیدخبریں