لاہور سے محبت ہے اور عشق بھی۔ کوئی چائے پہ مدعو کرے یا کسی مشاعرے میں ہم اپنی مصروفیات اگر کوئی ہوں بھی تو انھیں پس پشت ڈال کے لاہور چل دیتے ہیں۔ پچھلے ہفتے سید مبشر حسین کا فون آیا، راجہ صاحب ! آپ لاہور تشریف لائیں تو آئی جی آفس ضرور آئیے گا ۔ ڈاکٹر عثمان انور کی خواہش ہے کہ آپ ان کے ساتھ چائے نوش فرمائیں۔ ہم صبح سویرے لاہور کے لیے نکل پڑے کہ آئی جی صاحب سے ملنے سے پہلے کچھ پرانے دوستوں سے بھی ملاقات کرلی جائے۔ ایک کالم نگار دوست کافی دنوں سے ہمارے منتظر تھے۔ انھوں نے پہلے اندرون شہر سے سپیشل لاہوری ناشتہ کروایا پھرچوک میں بیٹھ کے ادبی، صحافتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے گپ شپ ہوتی رہی اور ساتھ ساتھ نگرانوں کے طرز عمل پر کھل کے بات ہوئی۔ وقت مقررہ سے کچھ پہلے آئی جی دفتر پہنچ گئے۔
بتایا گیا کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور چاہتے ہیں کہ ہمیں ان کے ساتھ ذاتی ملاقات سے پہلے مختلف اضلاع سے آئے ترقی پانے والے آفیسرز کے ساتھ ہونے والی تقریبات میں بطور مبصر شامل کیا جائے۔ ہال میں ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز ہمایوں بشیر تارڑ، ڈی آئی جی آئی ٹی احسن یونس، اے آئی جی ڈسپلن احسن سیف اللہ اور دیگرافسران موجود تھے۔ ایس ایس پی افضل نے آئی جی صاحب سے ہمارا تعارف کروایا تو جناب بڑی محبت سے بغلگیر ہوئے ۔ پھربغیر وقت ضائع کیے اپنی فورس کے جوانوں سے خطاب شروع کردیا۔ جو میں نے دیکھا محسوس کیا اس بنا پر میں سمجھتا ہوںکہ ڈاکٹر عثمان انوردبنگ، دلیر، فرض شناس افسر، دین و دنیا کوسمجھنے والے ایک جہاں دیدہ انسان اور باصلاحیت کمانڈر ہیں۔ ان کے لفظ لفظ سے دھرتی کی محبت اور احترام انسانیت کا تصورجھلک رہا تھا۔ ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا کہ وہ پولیس فورس کے ڈھانچے کو بہتر سے بہترین کررہے ہیں۔ سی آئی اے پولیس کو اس طرح منظم کررہے ہیں کہ ان کا رابطہ ہر ضلع کے درمیان مؤثر طور پر رہے۔صوبے بھر میں جرائم پہ قابو پانے کے لیے سینٹرل ڈیٹا بیس بنایا جارہا ہے ۔جرائم کی روک تھام کے لیے سوشل میڈیا ایپس متعارف کروائی جارہی ہیں۔ پولیس کے جوانوں کو دوران فرض ادائیگی زخمی ہونے پر غازی اور جان قربان کرنے پر شہید کہہ کے پکارا جارہا ہے۔ پھر شہداء اور غازیوں کے سات سو بچوں کی محکمے میں بھرتی کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔
اہم مشن مکمل کرنے والوں کو ان کی بہادری کے بدلے تمغہ بہادری دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ ترقی پانے والے آفیسرز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عثمان انور بولے، اگر آپ کا مقصد اللہ کو راضی کرنا نہیں، اگر آپ کے دل میں اللہ کے حبیب کی محبت نہیں، اگر آپ کا عمل ایک مسلمان والا نہیں تو یہ ترقی، یہ میڈل اور یہ نقد انعام کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ جائیے اپنے علاقوں میں اور اپنے عمل سے ثابت کیجیے کہ آپ والدین نے آپ کی تربیت کیسی کی ہے ۔ آپ کے تھانے میں کوئی مصیبت کا مارا آجائے تو اس کی جیب خالی کرنے کی بجائے اس کی قانونی مدد کے لیے کمر بستہ ہوجائیے۔ محکمہ آپ کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے ہر وقت آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اللہ کرے سب لوگ امن سے رہیں لیکن اگر کسی کے ساتھ ڈکیتی ہوجائے، کوئی قتل ہوجائے تو ذمہ داری کے ساتھ ان کی بات سنیے اور پھر ایف آئی آر کاٹ کے انھیں انصاف کا یقین دلائیے۔کسی تھانیدار کے سامنے کوئی خاتون اکیلی اپنا دکھڑا سنانے آپہنچے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی آنکھوں میں حیا رکھے اور اس خاتون کی مدد کے لیے کوشش کرے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ آپ کو اجازت ہے اپنے اچھے کاموں کو سوشل میڈیا پر شیئر کیجیے بلکہ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور پھر لوگ خود پولیس کے بارے اپنا بیانیہ سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ ہم نے عرض کیا، جناب والا! آپ نے پولیس میں ترقیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے لیکن آپ کے دور میں ابھی تک ڈی ایس پی رینک کے لوگ ترقی سے محروم ہیں، دوسرے ٹریفک وارڈنز کی ترقی میںاچھی کارکردگی کی بجائے عمرزیادہ ہونا کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ ڈاکٹر عثمان انور نے مسکراتے ہوئے کہا، ہم اچھی کارکردگی والوں کو بھی ترقی دیں گے۔
صاحبو!میں ایک لکھاری ہوں، شاعر ہوں،سماج سیوک ہوں، میراخیال ہے کہ نفرتوں کم کرنے کے لیے محبتوں کو عام کرنا بہت ضروری ہے۔ اس گھٹن کے دور میں اگر کہیں کوئی پھول خوشبو بکھیرتا نظر آئے تو اس خوشبو کی بات کی جانی چاہیے۔ میرے پچھلے کالم کو جہاں بہت سے لوگوں نے پسند کیا وہیں کچھ لوگوں نے کھل تنقید بھی کی۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ راجہ صاحب !ہم آپ کو سالہا سال سے جانتے ہیں آپ نہ تو دیہاڑیاں لگاتے اور نہ ہی ساتھیوں کے ناجائز کام میںسفارش کرتے ہیں تو پھر یہ پولیس فورس کے سربراہ کے حوالے سے اتنا مثبت کالم کیوں لکھا؟ آپ کو محکمہ پولیس کی برائیوں کو تفصیل سے لکھنا چاہیے تھا۔ میں نے عرض کیا، جب آپ خود مانتے ہو کہ مجھے کسی سے کوئی فائدہ نہیں چاہیے تو پھر بحث کیسی۔ آخری بات یہ کہ ٹریفک پولیس ہیلمٹ نہ پہننے والوں کو ضرور جرمانہ کرے مگر ون وے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھی ہزاروں میں جرمانہ کیا جائے کیونکہ ہیلمٹ نہ پہننے والا صرف اپنی جان کو مشکل میں ڈالتا ہے جبکہ ون وے کی خلاف ورزی کرنے والے دوسرے کئی لوگوں کی جانوں کے دشمن بنتے ہیں۔ والدین کو، اساتذہ کو اور مولوی صاحبان کو لوگوں کو سمجھانا ہوگا کہ ون وے کی خلاف ورزی قانوناً جرم ہے، بد تہذیبی ہے اور گناہ ہے۔