پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا تصفیہ ضروری ہے

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان خطے میں تناؤنہیں چاہتابلکہ امن کا خواہاں ہے۔ پائیدار امن کے لیے کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل ضروری ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور سوئٹرزلینڈ کے مابین معاہدے اور مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے موقع پر ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں کشیدگی اور جنگیں لڑنے میں اپنے وسائل ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ ماضی میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اپنے وسائل ملکی ترقی میں خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دوسرے فریق کو بھی یہی سوچ اپنانی چاہیے۔ پاکستان دنیا میں خوشحالی اور امن کا فروغ چاہتا ہے۔ دنیا کے اس خطے میں پائیدار امن کے لیے ہمیں بغیر کسی الجھن کے واضح طور پر یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے لیے ہمیں اپنے مسائل بشمول مسئلہ کشمیر حل کرنا ہو گا، اس کے بغیر اس خطے میں امن نہیں ہو سکے گا۔ 
پاکستان کی طرف سے ہمیشہ اور ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادیں اور ان اداروں میں مسئلہ کشمیر سے متعلق ہونے والے تمام اجلاس گواہ ہیں کہ پاکستان نے ہر بار یہی موقف اختیار کیا کہ خطے میں قیامِ امن مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی برادری کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے یہ معاملہ آج تک التوا کا شکار ہے اور پون صدی گزر جانے کے باوجود بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے باسی اپنی آزادی کے لیے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اہم اور طاقتور ممالک اس مسئلے کو حل کرانے کی بجائے اسے مزید بگاڑنے کے لیے کردار ادا کررہے ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر میں حال ہی میں ہونے والا جی ٹونٹی اجلاس ہے جس میں امریکا اور برطانیہ سمیت کئی اہم ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ مقبوضہ وادی پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ علاقہ ہے وہاں اجلاس میں شرکت کر کے ان تمام ممالک نے اپنی بے حسی کا ثبوت دیا۔
کشمیریوں کی جدوجہد مختلف شکلوں میں مختلف مواقع پر بین الاقوامی برادری کو یہ باور کراتی ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی غیور کشمیری اپنے حق خود ارادیت سے دستبردار ہوں گے۔ 22 سالہ برہان مظفر وانی کی شہادت بھی اس جدوجہد ہی کی ایک شکل ہے۔ 8 جولائی 2016ء کو بھارتی قابض فوج نے برہان وانی کو شہید کیا۔ برہان وانی شہید نے بندوق سے زیادہ انٹرنیٹ کے استعمال کو ترجیح دی جس سے بھارت کے در و دیوار لرز اٹھے اسی لیے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جاری تحریک کی تاریخ میں برہان وانی کو جرأت اور مزاحمت کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ہفتے کے روز مقبوضہ وادی میں برہان وانی کی شہادت کے 7 سال مکمل ہونے پر شٹر ڈاون ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے موقع پر کل جماعتی حریت کانفرنس نے برہان وانی اور تحریک آزادی کشمیر کے دیگر شہداء کو شاندار خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یومِ تجدید منایا۔
اسلام آباد میں بھی برہان وانی کی برسی کے موقع پر ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں کشمیر و پاکستان اور جموں و کشمیر لبریشن کمیشن آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے زیر اہتمام جنرل سیکرٹری حریت کانفرنس شیخ عبدالمتین اور وزیر حکومت جاوید احمد بٹ کی قیادت میں احتجاجی ریلی دفتر خارجہ اسلام آباد سے بھارتی سفارتخانے تک نکالی گئی۔ احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے والے مظاہرین نے ہاتھوں میں شہید برہان وانی کی تصویر، کتبے اور جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ اس موقع پر شہدائے کشمیر کے حق میں اور بھارتی ناجائز تسلط کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کیے گئے۔ احتجاجی ریلی سے شیخ عبدالمتین، جاوید بٹ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برہان وانی شہید تحریک آزادی کشمیر کے وہ عظیم رہنما ہیں جنھوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے بھارت کے کشمیر پر سات دہائیوں سے زائد ناجائز قبضے کی مصنوعی عمارت کو نہ صرف خاکستر کیا بلکہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کو جلا بخشی۔ شرکاء نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کوان کا ناقابلِ تنسیخ حقِ خودارادیت دینے سے بھارت کے مسلسل انکار کا فوری نوٹس لے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر کو ہتھیانے کے لیے گزشتہ پون صدی سے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے لیکن اسے ہر مرحلے پر ناکامی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے یہ بات واضح تر ہو جاتی ہے کہ کشمیری اپنی آزادی حاصل کر کے رہیں گے خواہ اس کے لیے انھیں کتنے ہی کٹھن مراحل سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ 5 اگست 2019ء کو بھی مودی سرکار نے ایک ایسی ہی گھناؤنی کوشش کر کے بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو ختم کردیا تھا۔ مودی سرکار کا خیال تھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے تعلق رکھنے والی ان دفعات کو منسوخ کر کے بھارت مقبوضہ وادی پر اپنا قبضہ مستحکم بنا لے گا لیکن 1434 روز سے مقبوضہ کشمیر میں لگا ہوا کرفیو اس بات کا گواہ ہے کہ بھارت کا ہتھکنڈا بھی الٹا اس کے گلے پڑ چکا ہے اور مذکورہ اقدام کے خلاف غیور کشمیریوں کے ردعمل کے ڈر سے اس نے وادی کا مسلسل فوجی محاصرہ کر رکھا ہے۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے اگر واقعی قیامِ امن اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو انھیں مسئلہ کشمیر جلد حل کرانا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن