بلوچستان لوکل باڈیز الیکشن۔پی ٹی آئی کا صفایا

Jul 10, 2023

اصغر علی شاد

اصغر علی شاد 
امر اجالا
مبصرین کے مطابق یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ بلوچستان کے تمام35 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوگیااور چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب کرلیے گئے۔تفصیل کے مطابق بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے کے لئے رواں ہفتے الیکشن کا انعقاد عمل میں آیا۔ غیر جانبدار ذرائع کے مطابق یہ بات اطمینان بخش ہے کہ یہ انتخابی عمل پر امن ما حول میں مکمل ہوا اور کسی نہ خوش گوار واقعے کی اطلاع بھی سامنے نہ آئی۔یوں پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بلدیاتی انتخابات پرامن ڈھنگ سے اپنے اختتام کو پہنچا۔یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ پولنگ سے قبل یوسیز چیئرمین اور مخصوص نشستوں پر منتخب 166 ارکان نے حلف اٹھایا۔
صوبے کے 35 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے غیر حتمی نتائج کے مطابق ڈسٹرکٹ چیئرمین کے انتخابات میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے کامیابی سمیٹی۔بی اے پی نے چیئرمین کی 10 اور وائس چیئرمین کی 9 نشستیں حاصل کیں، پیپلز پارٹی نے چیئرمین کی 6 اور وائس چیئرمین کی 4 نشستیں، جے یو آئی (ف) نے چیئرمین اور وائس چیئرمین کی 4، 4 نشستیں حاصل کیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک بھی ضلع میں کامیابی حاصل نہ کر سکی۔واضح رہے کہ پولنگ کے دوران صوبائی حکومت کی جانب سے سکیورٹی کے بہترین انتظامات کیے گئے تھے، پولنگ صبح 8بجے سے شام 4 بجے تک جاری رہی اور انتخابی عمل کے دوران صورتحال کو کنٹرول رکھنے کے لیے تمام اضلاع میں دفعہ 144 نافذ رہی۔
سنجیدہ حلقوں کے مطابق اس تمام صورتحال کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو ان انتخابی نتائج کے دوران بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اگر یہ کہا جا ئے تو بیجا نہ ہوگا کہ بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کا بڑی حد تک صفایا ہوگیا۔سیاسی مبصرین کے مطابق اس امر کے محرکات سے آگاہی بے حد ضروری ہے کیوں کہ ایک بر س قبل تک پی ٹی آئی صوبائی حکومت میں نہ صرف بڑے حصے کی مالک تھی بلکہ اس کے صوبائی سربراہ عمران حکومت میں خاصے بڑے مقام کے حامل تھے۔
غیرجانبدار حلقوں کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک پی ٹی آئی کے صوبائی صدر یار محمد رند تھے مگر 9مئی کے سانحے کے بعد وہ نہ صرف پی ٹی آئی سے الگ ہوگئے تھے بلکہ انہوں نے پی ٹی آئی قیادت کے زہریلے بیانیے کو حرف تنقید بھی بنایا تھا۔ پی ٹی آئی بلوچستان کے رہنماؤں اور کارکنوں کی اکثریت عمرانی بیانیے سے مطمئن  نہیں تھی جس کا نتیجہ حالیہ انتخابات میں بدترین شکست کی صورت میں سامنے آیا۔اس حوالے سے یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ القادر ٹرسٹ کا معاملہ بھی پی ٹی آئی کی شکست فاش کی وجہ بناکیوں کہ یہ صورتحال سامنے آنے کے بعد عمران خا ن کی پارسائی کے دعووں کا دامن پوری طرح تار تار ہوگیا۔
 کسے معلوم نہیں کہ  القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔ اتحادی حکومت نے تب یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ 'بحریہ ٹاون کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کی گئی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نے  مارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاون اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔جون 2022 میں  اتحادی حکومت نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاون کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ابطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط موجود تھے۔
قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق انکوائری کو باقاعدہ تحقیقات میں تبدیل کیا  اور.نیب کے حکام اس سے قبل اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور برطانیہ سے موصول ہونے والے جرائم کی رقم کی وصولی کے عمل کی انکوائری کر رہا تھا۔
اس تما م پس منظر میں غالبا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے لوکل باڈیز الیکشن میں تحریک انصاف کی ناکامی کی دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ریاست پاکستان پر باقاعدہ حملہ تھا جس کے ذریعے پاکستان مخالف عناصر کی خوشنودی حاصل کرنے کی مکروہ سازش رچی گئی مگر بلوچستان کے عوام کی بھاری اکثریت نے اپنے ووٹ کے ذریعے اس  بیانیے  کو مسترد کر دیا

مزیدخبریں