جرم ضعیفی کی سزا

فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میںمرکزی مسجد کے باہر ایک ملعون کی جانب سے قرآن حکیم کی بے حرمتی کرنے کے واقعے نے مسلم امہ سمیت امن اور بقائے باہمی پر یقین رکھنے والے مہذب لوگوں کو مغموم کر دیا۔ اس افسوس ناک واقعہ پربڑے پیمانے پر غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے اور بھر پور مذمت بھی کی جا رہی ہے۔یہ افسوس ناک سانحہ پہلی بار نہیں ہوا۔اسلام کو بد نام کرنے کے لیے ایک منصوبہ کے تحت پر تشدد ذہنیت کے چند لوگ تسلسل کے ساتھ اس جیسی مکروہ حرکتیں کر رہے ہیں۔اس کا مقصداسلامو فوبیا کو ہوا دینا، اپنی خباثتوں کا اظہار اور مسلمانوں کے جذبات ابھارنا ہی ہو سکتا ہے۔چند سال پہلے بھی ایک مکروہ شخص نے اس سے ملتی جلتی حرکت کرنے کی کوشش کی جس کو ایک مسلم نوجوان کی فلائنگ کک نے ناکام بنا دیا۔سویڈن میں ہونے والا واقعہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس دفعہ کسی ایسے رد عمل سے بچنے کے لیے پولیس اور انتظامیہ کی نگرانی میں یہ سب کچھ ہوا۔مغربی ممالک نے عادت ہی بنا لی ہے کہ وہ گستاخوں کی مذموم حرکات کو ان کا انفرادی عمل اور آزادی اظہار رائے کا نام دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ان ممالک کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا کے بڑے مذہب کی توہین کی جسارت دو ارب آبادی کو رنج پہنچانا انفرادی فعل نہیں بلکہ عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کی سازش ہے۔ا قوام متحدہ اور مہذب ممالک کو اس واقعہ کا نوٹس لینا چاہیے۔سویڈن کی حکومت کی بھر پور مذمت کے ساتھ اس کا معاشی اور سفارتی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔
سات جولائی بروز جمعہ کو’’یوم تقدیس قرآن ‘‘منایا گیا۔ ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔اس واقعہ کی مذمت کی گئی۔ دیگر اسلامی ممالک میں بھی بھر پور احتجاج جاری ہے لیکن صرف احتجاج کافی نہیں۔پاکستان میں ہونے والی ریلیوں کا اثر سویڈن پر نہیں پڑے گا۔ان کو تکلیف اس وقت ہوگی جب تمام اسلامی ممالک اپنے سفیر واپس بلا لیں گے اور اپنے ممالک سے سویڈن کے سفیر کو دیس نکالا دیں گے۔شدید تکلیف اس وقت ہوگی جب سویڈن کی مصنوعات کا حکومتی اور انفرادی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ اور اس جیسے دیگر واقعات اس لیے دہرائے جا رہیں کہ دشمنان اسلام کو اندازہ ہے کہ موجودہ دور کے مسلمان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔مسلمانوں کے یہ کمزوری ان کے جرم ضعیفی کی وجہ سے ہے۔جرم ضعیفی کی اصطلاح حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی ایک نظم میں بیان فرمائی۔یہ نظم اپنے اندر بڑا سبق سمیٹے ہوئے ہے۔مسلم ممالک کے حکمران اور عوام اگر اس سبق کو سیکھ لیں اور اس پر عمل کرلیں تو مرض ضعیفی یعنی کمزوری سے نجات پالیں گے۔پھر کسی گستاخ کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ توہین رسالت کرے یا قرآن پاک کی بے ادبی کرے۔علامہ فرماتے ہیں
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معری
پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات
اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطر ہو اسی ترکیب سے مات
یہ خوان تر وتازہ معری نے جودیکھا
کہنے لگا وہ صاحب ’’غفران و لزومات‘‘
اے مرغک بے چارہ ذرا یہ توبتا تو
تیرا وہ گنہ کیا تھایہ ہے جس کی مکافات
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو 
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
مرگ مفاجات کا مطلب ہے بے بسی کی اور ذلت آمیز موت۔جو قوم فطرت کے اشارات نہیں سمجھتی قانون فطرت کے مطابق ذلت آمیز زندگی اور بے بسی کی موت ہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔مسلمانوں کو اپنی حالت بدلنے کا سوچنا چاہیے اور اپنی معاشی ، اقتصادی ،تعلیمی اور عسکری صلاحیتوں کو بہتر کریں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قرآن پاک سے رہنمائی لیے بغیر ممکن نہیں۔کیوں کہ 
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
اگر تو مسلمان بن کر جینا چاہتا ہے تو یہ جبھی ممکن ہے کہ توقرآن پاک کے مطابق ڈھل کر زندگی بسر کرے۔
مرض ضعیفی کا تیر بہدف نسخہ بھی قرآن مجید سے ہی ملے گا۔اللہ پاک امت مسلمہ پر رحم فرمائے

قاضی عبدالرئوف معینی 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...