ماحولیاتی تبدیلی، غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کا خطرہ

 فر حان علی
farhan_ali702@yahoo.com 
 پاکستان کو اس وقت مو سمیا تی تبد یلی کا سامنا ہے۔ گز شتہ سال سیلا ب سے ہو نے والی تبا ہ کا ریو ں سے جانی و ما لی نقصان ہوا جس سے 33ملین افراد متا ثر ہوئے ہیں۔پا کستان کے گلیشیئرپگھلنے کی رفتا ر میں تقریباً 3گنا اضا فہ ہو ا ہے۔ رواں ماہ لا ہو ر میں ہو نے والی مو ن سون با رشوں نے 30 سالہ پرانا ریکا رڈ توڑ نے کے ساتھ ساتھ سیلا ب کے خطر ے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔ پاکستان میں ڈیمز کی تعمیر سے اس پانی کو محفو ظ بنا کر 2025 میں پیدا ہو نے والی پا نی اور توانائی کی قلت کو پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ وزیر ماحولیات تبد یلی شیر ی رحما ن کی دعوت پر ’’کاپ 28‘‘ کے صدر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے صنعت اور جدید ٹیکنالوجی سلطان احمد الجابر نے پا کستان کا ایک روزہ سرکاری دورہ کیا۔پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجز اور ’’کاپ 28‘‘ سے  ہماری توقعات اس دورے کا  خصوصی مقصد رہا جس کے تحت  متاثرہ ممالک کوپائیدار حل کی جانب ایک اجتماعی راستہ استوار کرنا ہے۔اس دورے کے دوران شیری رحمان ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کے خطرات، عالمی چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومت کے فعال اقدامات اور پروگراموں پر روشنی ڈالی۔ملا قات کے دوران ماحولیا تی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان نے رواں سال کے آخر میں متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونے والی آئندہ ’’کاپ 28‘‘ سے پاکستان کی توقعات کا اظہار کیا اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کو اُجاگر کر نے اور ’’کاپ 28‘‘ کے دوران گفتگو کی تشکیل میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے پاکستان کے عزم پر زور دیا۔ بعدازاںبرطانوی حکومت کے زیراہتمام موسمیاتی تبدیلی کے بحران کی روک تھام کیلئے فنڈز کی فراہمی کے پروگرام میںوزیر برائے موسمیاتی تبدیلی وماحولیات شیری رحمان نے پاکستان کوموسمیاتی فنڈز تک محدود رسائی اورتکنیکی صلاحیت کے فقدان کے دوہرے چیلنجز کاسامناہے جو موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے اہداف کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ وفاقی وزیرنے سرکاری اورنجی دونوں شعبوں میں ماحولیاتی تبدیلی کوترجیحی چیلنج قرار دینے کی ضرورت پرزوردیا اورماحولیاتی فنڈز کی فراہمی کے بارے میںحکومت کے نقطہ نظر کوآگے بڑھاتے  ہوئے متعلقہ پروگرام کی اہمیت کو اُجاگرکیا۔ موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے فنڈز کی فراہمی جیسے پروگرام، سرکاری اورنجی شعبوں میں آگہی کے فروغ اور ان کی صلاحیت کار میںاضافے میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں۔آگاہی اورعوامی دلچسپیوں کوحکومتی اہداف کے مطابق ڈھال کر موسمیاتی فنڈز کے حصول کے پروگرام کی افادیت میں اضافہ کیاجاسکتا ہے۔ 
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں موسمیات  اور ہنگامی صورت حال میں عوام کی رہنمائی کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں بارش اور اس سے ہونے والے نقصانات کی برابر  تفصیلات جاری کی  جا رہی ہیں۔  دو ایک روز میں ہونے والی بارشوں سے بلوچستان میں اب تک ایک گھر کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ 6 افراد جاں بحق جبکہ 8 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اس دوران 8 افراد کی اموات اور ایک شخص زخمی ہوا ہے جبکہ ایک گھر کو نقصان پہنچا ہے۔اس طرح صوبہ میں مجموعی طور پر 18 اموات ، 35 افرادزخمی اور 44 مکانوں کو نقصان پہنچا ہے۔ پنجاب میں مجموعی طور پر 43 اموات ہوئیں جبکہ 82 افراد زخمی اور 31 گھروں کونقصان پہنچا ہے۔ ان  بارشوں کے نتیجے میں صوبہ میں 9 اموات ریکارڈکی گئی ہیں جبکہ 37 افراد زخمی ہوئے ہیں اور 13 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ این ڈی ایم اے نے کہا کہ سندھ اور گلگت بلتستان میں حالیہ بارشوں کے دوران کسی قسم کے جانی و مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔آزاد جموں وکشمیر میں  بھی ایک گھر کو نقصان پہنچا ہے جبکہ اب تک ایک شخص جاں بحق ہوا ہے اور ایک ہی گھر متاثر ہوا ہے۔ این ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ شمال ،شمال مغربی پنجاب بشمول لاہور ،سیالکوٹ اور نارووال میں تیز آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔ ملک کے پہاڑی علاقوں کے ندی نالوں سمیت مختلف شہروں میں اربن فلڈنگ کا بھی خدشہ ہے۔ اسی طرح سندھ میں کراچی،تھرپارکر، سکھر، لاڑکانہ ، حیدرآباد، بدین اور شہید بے نظیرآباد کے علاوہ شمال مشرقی بلوچستان میں سبی، ڑوب، کوہلو، قلعہ سیف اللہ ، خضدار، بارکھان، لورا لائی، ڈیرہ بگٹی اور لسبیلہ کے علاوہ خیبر پختونخوا میں بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، مالم جبہ اور بالاکوٹ میں مزید بارشوں کی توقع ہے۔این ڈی ایم اے نے لاہور ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور فیصل آباد کی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ اربن فلڈنگ سے تحفظ کیلئے احتیاطی اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ این ڈی ایم اے نے دریائے چناب  مرالہ ہیڈورک اور دریائے راوی پر جیسر ہیڈورک کے مقام پر20 جولائی تک سیلاب کے خطرہ کی پہلے ہی نشان دہی کر دی ہے ، مگر پھر بھی ان خطرات سے نمٹنے کیلئے مقامی انتظامیہ سے سے لیکر عالمی اداروں تک سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ 

ای پیپر دی نیشن