معروف شاعر، ادیب اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کی آج 17 ویں برسی

معروف شاعر، ادیب، افسانہ نگار اور کالم نگار احمد ندیم قاسمی کی آج 17 ویں برسی منائی جا رہی ہے، اپنی منفرد تخلیقات کی بدولت احمد ندیم قاسمی آج بھی ادب کے افق پر ایک درخشندہ ستارے کی مانند جگمگا رہے ہیں۔کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا۔۔۔۔ میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا، احمد ندیم قاسمی ہشت پہلو شخصیت کے مالک ادیب تھے، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، صحافی اور کالم نگاری ان کا خاصہ تھا، انہوں نے پہلا عشق شاعری کو قرار دیا، نظم و نثر پر بھی زبردست عبورحاصل تھا۔احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916ء کو پنجاب کے ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق خانقاہ سے تھا، اسی لئے مزاج میں قلندری اورصوفیت تھی، اصل نام احمد شاہ جبکہ ندیم تخلص ٹھہرا، انہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسے میں اور پھر اعلیٰ تعلیم بھاگلپور میں حاصل کی۔معروف افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی نے پہلا شعر 1927ء میں کہا جبکہ پہلی نظم 1931ء میں روزنامہ ’’سیاست ‘‘ لاہور میں شائع ہوئی جو انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر کہی۔احمد ندیم قاسمی کے 17 افسانوی اور 6 شعری مجموعے شائع ہوئے، تنقید و تحقیق کی تین کتابیں چھپیں اور ترتیب و ترجمہ کے تحت بھی چھ کتابیں منظر عام پر آئیں، انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت کچھ لکھا اور ان کا انتخاب تین کتابوں کی شکل میں شائع ہوا۔معروف شاعر کے افسانے ’’پہاڑوں کی برف‘‘، ’’نصیب‘‘ ،’’لارنس آف تھیلیسیا‘‘،’’ بھاڑا‘‘،’’ بدنام‘‘، ’’کفن دفن‘‘،’’ رئیس خانہ‘‘،’’ موچی‘‘ اور ’’ ماں‘‘ بے حد مقبول ہوئے، احمد ندیم قاسمی کو تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ادب کی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ 10 جولائی 2006ء کو لاہور میں اس دارفانی سے کوچ کر گیا۔

ای پیپر دی نیشن