پچھلے کالم کے اختتامی کلمات اس بات کا اعادہ کر رہے تھے کہ ریاست پاکستان کی طرف سے اناونسڈ ایکسائز “ عزم استحکام “ پر کسی قسم کے تبصرے یا قیاس آرائی سے قبل اگر کچھ زمینی حقائق اور معروضی حالات کا تجزیہ کر لیا جائے تو شائد وہ ایک عام قاری کا ذہن اس حد تک کلیر کر دے کہ مستقبل کے حوالے سے اس ایکسائز کی کیا افادیت ہو سکتی ہے یا متبادلاٰ یہ پاکستان کیلیئے اور کن مصیبتوں کا باعث بن سکتی ہے۔ بات شروع ہوئی تھی کہ جیسے ہی غالبا 22 جون کو اس ایکسائز کی شروعات کے عزم کا اظہار کیا گیا اس سے ٹھیک چار دن بعد 26 جون کو امریکی ایوان نمائندگان کو یہ قرارداد پاس کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ مزید برآں اسکے محرکات کے ساتھ ساتھ اس قراداد کے متن میں درج نقاط کے علاوہ اس قر ارداد کے اور کیا مطلوبہ اہداف ہو سکتے ہیں۔ ان حقائق کو جاننے کیلئے سب سے پہلے اسکے متن کی طرف آئیں تو اس قرارداد کا آغاز “where as “ سے کیا گیا جس کا اردو ترجمہ” کیونکہ” یا “چونکہ” ہوتا ہے اور یہاں پندرہ پوانٹس دیئے گئے ہیں جسکا ل±ب لباب یہ ہے کہ چونکہ آپکا امریکہ کے ساتھ فلاں فلاں معاہدہ فلاں فلاں تاریخ کو ہوا جس میں آپ نے یہ یہ یقین دہانی کروائی وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا ان معاہدوں کی روشنی اور پاکستان میں ہونے والے حالیہ الیکشن کے بارے میں کچھ بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹوں کے جائزے کے بعد فکری سطح پر یہ ایوان نمائندگان پاکستان میں جمہوری پراسس کو، جس میں فری اینڈ فئیر الیکشن شامل ہے، سپورٹ کرتا ہے دوئم یہ ایوان امریکن صدر اور سیکرٹری آف اسٹیٹ کو باور کراتا ہے کہ وہ حکومت پاکستان سے اس سلسلے میں رابطہ کرے کہ وہاں انسانی حقوق اور رول آف لاءکی پاسداری کی جائے۔ سوئم وہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کرے کہ جمہوری اداروں ،الیکٹورل اداروں ، جمہوریت ، بنیادی انسانی حقوق ، فریڈم آف پریس، فریڈم آف اسمبلی اور آزادی رائے کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے۔ چہارم ان تمام کوششوں جنکے تحت وہاں کے لوگوں کی جمہوری کوششوں کو بذریعہ ہراسمنٹ، تشدد، غیر قانونی نظربندیوں اور انٹرنیٹ پر پابندیوں کے ذریعے انکے سول اور بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے یہ ایوان ایسی کاروائیوں کی مذمت کرتا ہے۔ پنجم وہ ہر اس اقدام کی مذمت کرتا ہے جسکے تحت کسی بھی سیاسی، الیکٹورل اور عدالتی پراسس کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اور آخر میں یہ ایوان پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخاب کے حوالے سے ایک مکمل اور باضابطہ تحقیقات چاہتا ہے۔
اس قرارداد کے متن پر غور کیا جائے تو یہ قرارداد ایوان نمائندگان کی طرف سے ایک فکری تشویش کا اظہار ہے۔ مزے کی بات کہ قرداد میں خاصکر پانچ، چھ اور سات نمبر پر درج نقات اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ جن حالات اور واقعات کا ان میں حوالہ دیا جا رہا ہے ان میں بیشتر ماضی کے وہ واقعات ہیں جب پاکستان میں ڈکٹیٹرشپ کا دور دورہ تھا اور جب پاکستان انہی ایوان نمائندگان پر مشتمل امریکن حکومت کے ساتھ مکمل روابط میں تھا جبکہ امریکن اسٹیبلشمنٹ نے اس وقت پاکستان آرمی کے کسی بھی اقدام کو نہ صرف چیلنج نہیں کیا بلکہ وہ ہر فورم پر انکے تمام اقدامات کو سپورٹ کرتی رہی۔ مزید برآں دیکھنے والی یہ بات ہے کہ 2018ءکے جس الیکشن میں فوجی اثراندازی کی بات کی جا رہی ہے اسکے نتیجے میں کس کی حکومت بنی اور کیا اس وقت اس ایوان نمائندگان نے ایسی کوئی نشاندہی کی جس سے یہ پتا چل سکے کہ ان انتخابات میں فوج کی طرف سے کوئی اثر و رسوخ استعمال ہوا۔ جب اس وقت ایسا کوئی سوال نہیں ا±ٹھایا گیا تو اب کیوں۔
قارئین اس سیر حاصل گفتگو میں جن نقات کی نشاندہی کی گئی ہے اسکی تفصیلات جاننے کے بعد ایک عام قاری سمجھ سکتا ہے کہ یہ قراداد اصل میں پاکستان آرمی کو دباو¿ میں لانے کی ایک کوشش ہے کیونکہ یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ جسطرح ریاست نے سی پیک کے معاملے میں اسی طرح کمر باندھی ہوئی ہے جیسے اس نے ایٹمی طاقت کے حصول میں اپنا عزم دکھایا تھا، اسکے پیش نظر اس قراداد کا عین اس وقت آنا جب پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ اس منصوبہ کی تکمیل میں چین کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے، کسی مبالغہ آرائی یا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ دوئم جسطرح بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ قراداد کسی مخصوص سیاسی پارٹی کی لابینگ کی وجہ سے آئی ہے اس میں بھی کوئی وزن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جس عددی اکثریت سے یہ قرارداد پاس ہوئی ہے یہ کسی لابنگ فرم کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی یہ کسی فکری نشست کا حصول ہے۔ یہ عددی اکثریت واضع طور پر اس بات کا اظہار ہے کہ اسکے پیچھے وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہے جو کہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ کسی طرح یہ سی پیک منصوبہ اپنی تکمیل کو نہ پہنچے۔
اس قرار داد کی منظوری کے ساتھ اہل فکر کے لیے جو سب سے اہم بات تھی وہ امریکن اور پاکستانی حکومتوں کا ردِعمل تھا۔ قارئین آپ نے دیکھا کہ اسکے جواب میں چند دن کے وقفے کے بعد پاکستان کی حکومت اپنی اسمبلی میں اس قراداد کی مخالفت میں قرارداد لے آئی اور دیکھنے والی بات یہ ہے جیسا کہ واقفان حال بتاتے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمان سے اپنی قرارداد کی منظوری سے پہلے امریکن سفیر نے ایڑی چوٹی کا لگایا کہ پاکستانی حکومت اس قرارداد کی منظوری سے پیچھے ہٹ جائے اور اس نے اس حد تک پاکستانی حکومت کو یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ امریکن حکومت سرکاری سطح پر اس حد تک اعلان کر دیتی ہے کہ یہ قرارداد ایوان نمائندگان کا اپنا فعل ہے اور یہ کسی طرح امریکن حکومت کیلئے بائنڈنگ نہیں اور اسکا اظہار ایک پریس بریفنگ میں کر بھی دیا گیا لیکن امریکن سفیر کی پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات کے ایک گھنٹہ بعد چینی سفیر کی وزرات خارجہ آمد، ملاقات اور پھر پاکستان کی پارلیمان سے قرارداد کی منظوری ان تمام رازوں سے پردہ ا±ٹھا دیتی ہے کہ اس قرارداد کا “ عزم استحکام” سے کیا تعلق بنتا ہے۔
عزم استحکام
Jul 10, 2024