محمد ریاض اختر
شہر اقتدار میں وزارت پیشہ ورانہ تعلیم کے زیر اہتمام خصوصی ایونٹ میں وزیراعظم میں شہبازشریف نے انکشاف کیا تھا کہ وطن عزیز میں آج بھی 2 کروڑ 80 لاکھ نونہال سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں وفاقی حکومت نے تعلیمی اہداف مقرر کر دئیے۔کومت تعلیمی ایمرجنسی لگا کر پونے تین کروڑ بچوں کو سکول ایجوکیشن سے منسلک کرے گی۔وزیراعظم نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ تعلیمی ترقی اور سرکاری سرگرمیوں کی خود مانیٹرنگ کریں گے اور اس وقت چین سے نہیں بٹیھں گے جب تک آخری بچہ تعلیمی دائرے میں شامل نہیں کرادیا جاتا۔ جس روز وزیراعظم میاں شہبازشریف شعبہ تعلیم میں اصلاحات لانے کا عہد کررہے تھے اسی روز گوجرخان سے جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما سابق ممبر قومی اسمبلی مرحوم راجہ محمد ظہیر خان کے صاحب زادے راجہ محمد حاشر اپنی ٹیم کے ہمراہ پوٹھوار کے 100 تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کی عزت افزائی کررہے تھے۔ جنیٹری کالج کی اس غیر معمولی کتاب دوستی مہم میں عالمی شہرت کے حامل سکالر مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا باترجمہ قرآن کریم ' تفیسر اور دیگر دینی وتحقیقی کتب کا گلدستہ سکولوں اور کالجوں کے کتب خانوں کو عطیہ کرنا شامل ہے۔ راجہ حاشر کا شمار گوجرخان کے تعلیمی حلقوں میں انتہائی معتبر ہے۔ دیہی علاقوں کے تعلیمی ادارے ٹیلنٹ سے بھرپور ہیں وزارت تعلیم اور امور نوجوانان یکساں پالیسی اپنائے تو گڈری کے لعل ملک وملت کا سرمایہ بن سکتے ہیں۔ 2 کروڑ 80 لاکھ بچے سکول ایجوکیشن سے محروم کیوں رہے ؟راجہ حاشر نے اس سوالنکے جواب میں نوائے وقت کو بتایا کہ یہ کسی عام شخص نے نہیں وزیراعظم نے انکشاف کیا تھا کہ آج بھی 2 کروڑ 80 لاکھ بچے سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں، اتنی بڑی تعداد کی تعلیم سے محرومی المیہ ہے۔ نظام تعلیم کوقومی ضرورت کے مطابق راست کرنے کے لیے تعلیمی ایمرجنسی کا آپشن استعمال کرنا پڑے گا، میاں شہبازشریف نے مزید کہا تھا کہ امراء کے لیے نامور کالج بن سکتے ہیں تو غرباء اور متوسط طبقے کے بچوں کے لیے معیاری درسگاہیں کیوں نہیں بن سکتیں؟ دیر آید درست آید کے مصداق ہم وزیراعظم میاں شہبازشریف کی طرف سے نظام تعلیم پر توجہ دینے اور تعلیمی ایمرجنسی کے فیصلے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ تھوڑا سا گلہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اس شکایت کا تعلق بیوروکیسی کی روائتی تساہل پسندی سے ہے۔ اڑھائی کروڑ بچوں کی تعلیم سے محرومی کے یہ اعدادوشمار آج کے نہیں بلکہ ڈیڑھ برس قبل جب ایوان صدر میں عالمی خواندگی ڈے پر تعلیمی ایونٹ منعقد ہوا تو وزارت پروفیشنل تعلیم کے حکام نے اس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے گوش گزار سکول ایجوکیشن سے محروم بچوں کی اتنی یہ تعداد ظاہر کی تھی؟ جواب میں سربراہ ریاست نے افسوس اور تاسف کے جذبات کے سوا کچھ نہیں کہا!! وزارت تعلیم کے مستند ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ دس سال سے اعلی سطح کے اجلاسوں میں انہی اعداد و شمار کا جادو چل رہا ہے، حقائق یہ ہیں کہ آج سکول ایجوکیشن سے محروم بچوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز ہے ان میں سب سے زیادہ برے حالات صوبہ پنجاب کے ہیں یہاں دس برس کے دوران محسن نقوی' حمزہ شہباز شریف' چوہدری پرویز الہی اور خادم اعلی خود وزارت اعلی کے منصب پر سرفراز رہے ان صاحبان علم و حکمت سے بھی علم دوستی کا سوال پوچھا جاسکتا ہے۔ہر سال ساڑھے چار کروڑ بچے مدارس سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں یہ صرف دین کی خدمت کے لیے مدارس سے نکلتے ہیں ان کیلئے روزگار کا بندوبست کرنا حکمرانوں کا فرض ہے۔ حکومت مدارس ایجوکیشن کے ساتھ ٹیکنیکل ادارے قائم کرکے ساڑھے چار کروڑ بچوں کو ہنرمند بنانے کا مشن شروع کرے تو بیروزگاری کا بوجھ بڑی حد تک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آپ امریکہ' برطانیہ'سوئٹزر لینڈ، جرمنی اور آسٹریلیا کی مثالیں دیکھیں وہاں مشنری سرگرمیوں میں مصروف رہنے والے سماج پر بوجھ نہیں بنتے۔ پڑوس ممالک (بھارت اور بنگلہ دیش )کو دیکھ لیں انہوں نے کس طرح مدارس ایجوکیشن کو سرکاری سرپرستی کے دھاگوں میں باندھا ہوا ہے۔ سب سے اہم بات پبلک اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کی ہے ہم اکثر تقاریب میں عرض گزار ہوتے رہے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیمی اداروں کو سرپرستی اور رہنمائی کے گلاب عطا کریں ، انہیں چور ڈاکو، لٹیرا سمجھنے کی بجائے باعزت مقام دیں تو پرائیویٹ سیکٹر حکومت کا بوجھ مزید اٹھا سکتا ہے۔ اس وقت ایجوکیشن میں پرائیویٹ سیکٹر بہت اہم رول ادا کر رہا صرف یہ ہی نہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر تعلیم کے نام پر پیسے ہی لے رہا وہ اچھی تعلیم بھی دے رہا ہے اور ہزار ہا نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کو روز گار بھی دے رہا ہے جبکہ گورنمنٹ اور ادارے ان لوگوں کا رزق چھیننے کے درپے رہتے ہیں حکومت وقت تعلیمی ایمرجنسی سے قبل ایچ ای سی اور وزارت تعلیم کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈر کو آن بورڈ کریں حکام اور شخصیات کی شکایات سنیں، وجوہ تلاش کریں جس کے بعد فیصلہ کریں۔