’’ہائے! تھم کلاوے آ گیا اے‘‘

’اکھان‘ صدیوں پر مشتمل زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں ’’ہائے! تھم کلاوے آ گیا اے۔ ہن کی کرئیے‘‘ بھی ایک ایسا ہی پنجابی اکھان یا لطیفہ ہے۔
اکھانوں اور لطیفوں میں بعض قومیں اور برادریاں خصوصی نشانہ بنتی ہیں۔ کسی زمانے میں دنیا بالخصوص یورپ میں یہودیوں کی روایتی کنجوسی سنگدلی اور لالچ کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں وہ مفلوک الحال تھے۔ آج وہ دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ اب تو شیکسپیئر کا مشہور ڈرامہ ’’وینس کا سوداگر‘‘ جو یہودی ذہنیت کا صحیح عکاس تھا سٹیج کرنا آسان نہیں رہا۔
لطیفوں میں سکھ قوم کو بے وقوفی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر سکھ اتنے زندہ دل ہیں کہ نہ صرف لطیفے کو انجوائے کرتے ہیں بلکہ خود اپنے خلاف لطیفے تصنیف کرنے سے دریغ نہیں کرتے!
دیہات میں جولاہوں کی ضرورت سے زیادہ سادگی‘ حماقت اور بے وقوفی کے لطیفے سنتے آ رہے ہیں۔ مجھے تجسس تھا کہ آخر جولاہے اپنی محفلوں میں کس کو نشانہ بناتے ہیں کس طبقے کیخلاف لطیفے گھڑ رکھے ہیں۔ مجھے ایک ایسی مجلس اٹینڈ کرنے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے نمبرداروں‘ مالگزاروں کیخلاف لطیفوں کا محاذ کھول رکھا تھا۔ میں زیادہ لطف اس لئے اٹھا سکا کہ میں خود بھی یکے از قبیلہ مال گزاران ہوں!
ہاں تو بات شروع ہوئی تھی اکھان ’’ہائے تھم کلاوے آ گیا اے ہن کی کرئیے‘‘ سے یہ لطیفہ یا اکھان بھی روایتی جولاہوں کے بارے میں ہے۔ پرانے گھروں کے بڑے کمرے یا پسار کے سنٹر میں ستون یا تھم ہوتا تھا۔ ایک بچی نے کھیلتے ہوئے تھم کو جپھا یا کلاوہ مار لیا۔ وہ ستون اسکے کلاوے میں فٹ آ گیا۔ بچی نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں یوں پیوست کر لیا تھا کہ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اب وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی۔ اس نے گھبرا کر چیخ مار دی۔ گھر والے جمع ہو گئے۔ دہائی رولا پڑ گیا بی بیاں رونے لگیں۔ ’’ہائے بچی کے تھم کلاوے آ گیا اے ہن کی کرئیے‘‘ ساری برادری اکٹھی ہو گئی۔ بچی مسلسل رو رہی ہے چیخ رہی ہے مگر کسی کی کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آخر اس پرابلم کا حل کیا ہے؟ تاآنکہ برادری کے ایک بزرگ بزرجمہر نے تجویز دی کہ کمرے کی چھت پٹ دی جائے۔ تھم کے اوپر کا سرا ننگا ہو جائے تو لڑکی کو رسہ ڈال کر اوپر کھینچ لیا جائے۔ (اس لال بجھکڑ نے یہ نہیں بتایا کہ جب وہاں چھت نہیں ہو گی تو کہاں کھڑے ہو کر اسے اوپر کھینچا جائے گا) لیکن لطیفہ تو لطیفہ ہوتا ہے۔ مبالغے اور تضاد سے یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ عقل کے اندھے اتنا سادہ سوال بھی حل کرنے کے قابل نہیں۔ بچی کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو جدا نہیں کر سکتے کہ تھم اسکے کلاوے سے آزاد ہو جائے
آج کے تناظر میں پنجابی کا یہ اکھان کالاباغ ڈیم پر فٹ آتا ہے کہ ’’ہائے تھم کلاوے آ گیا اے ہن کی کرئیے‘‘ جولاہوں کی یہ قوم اس آسان ترین مسئلے کو حل نہیں کر پا رہی۔ ورنہ دنیا کے بڑے دریا کئی کئی ملکوں میں سے ہو کر گزرتے ہیں وہ قومیں بھی تو پانی کے مسائل حل کرتی ہیں مصر اور سوڈان دو ملکوں نے دریائے نیل پر اسوان ڈیم کا مسئلہ حل کیا ہے!
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے کچھ صوبوں کا تعلق کسی دشمن ملک سے ہے۔ کیا یہ وہی صوبے نہیں ہیں جو برسوں ’’ون یونٹ‘‘ نامی ایک ہی صوبے کا حصہ رہے ہیں؟
ii کیا ملک کے چاروں صوبوں کے مابین 1991ء کے تاریخی واٹر ایکارڈ میں کالاباغ ڈیم پر مکمل اتفاق رائے نہیں ہوا تھا اور اسی واٹر ایکارڈ کے تحت گذشتہ 18 سال سے پانی کی تقسیم ہو رہی ہے جس میں پنجاب کو زبردست ’’تھک‘‘ لگایا گیا ہے۔
iii کیا وفاقی اور مذکورہ تین صوبوں میں ایک اتحاد برسر اقتدار نہیں ہے اور کالا باغ ڈیم کیلئے جتنی فضا آج سازگار ہے اتنی شاید پہلے نہیں تھی؟
iv کیا پانی سٹور کرنے کیلئے پاکستان میں اس سے بہتر کوئی قدرتی سائٹ موجود ہے جس کے انتظامات اور تیاریوں میں اربوں بھی لگ چکے ہوں؟
v کیا کالاباغ ڈیم کی عدم موجودگی میں ملک مکمل تباہی کے کنارے نہیں پہنچ رہا۔ مسلسل لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں کاروبار تباہ پانی کی نایابی سے لاکھوں ایکڑ کھیت بنجر پڑے ہیں
vi کیا ہماری غیرت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہم بھارت کی آبی جارحیت کو روکیں اور کم از کم اس پانی کو تو ذخیرہ رکھیں جو دستیاب ہے؟
ہمارے آج کے حکمرانوں کے پاس اس نیک کام میں تاخیر کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کوئی عذر نہیں ہے۔ آج وہ تین صوبوں کی رٹ لگائیں تو ایک واقعہ یاد آتا ہے ایک لڑکے کے والدین نے نشہ کرنے اور بری حرکات سے منع کیا۔ اس نے پستول نکالا اور دونوں کو ڈھیر کر دیا۔ مقدمہ چلا‘ پھانسی کی سزا ہوئی سپریم کورٹ تک اپیلیں مسترد ہو گئیں۔ اس نے صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی تو اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ ’’وہ یتیم ہے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں وہ رحم کا مستحق ہے اس پر رحم فرمایا جائے‘‘
آئیے دیکھیں زندہ قومیں اپنے مسائل کیسے حل کرتی ہیں:
پنجاب تقسیم ہوا تو بھارتی پنجاب کے مقابلے میں پاکستانی پنجاب کہیں زیادہ زرخیز اور زیادہ پیداوار دینے والا خطہ تصور کیا جاتا تھا۔ چند سال قبل بھارتی پنجاب کی زرعی یونیورسٹی کے خالصہ جی وائس چانسلر نے فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کی سالانہ تقریبات میں حصہ لیا۔ سردار صاحب نے اپنے مخصوص کھلے ڈہلے انداز میں زندہ دلی سے کہا میں بھی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا فارغ التحصیل ہوں تمام تجربات میں نے یہیں سے حاصل کئے۔ میرے پنجاب اور آپ کے پنجاب کی زمین‘ پانی اور ہوا ایک ہی طرح کی ہے لیکن اسکی کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں گندم 80-75 من فی ایکڑ پیدا ہو رہی ہے جبکہ آپ کے ہاں 20-18 من فی ایکڑ سے زیادہ نہیں ہے۔
قومیں اپنے مسائل کیسے حل کرتی ہیں۔ بھارتی پنجاب والوں نے سب سے پہلے ڈیموں اور پانی کے ذخائر کا انتظام کیا۔ دھرتی کے ایک ایک انچ کو سیراب کیا کسانوں کو بجلی‘ کھاد‘ آلات کشید‘ زرعی کیڑے مار دوائیوں وغیرہ کے معاملات میں مثالی مراعات سے فیض یاب کیا اور بھارتی پنجاب کے محنتی کسان نے جو معجزہ کر دکھایا ہے‘ وائس چانسلر کس فخر سے اس کا ذکر کر رہے ہیں اسکے مقابلے میں ’’تھم کلاوے والے ہمارے جولاہے ہماری قیادت سرکاری خزانے سے کرنسی نوٹوں کو تندوروں میں پھونک کر صوبے کو خوشحال کر رہی ہے۔ وہ پانی سے یوں ڈر ہے ہیں‘ جیسے سگ گزیدہ ڈرتا ہے!
کیا کوئی حساب لگا سکتا ہے کہ کالاباغ ڈیم نہ بنا کر ہم اب تک کتنا نقصان اٹھا چکے ہیں؟

ای پیپر دی نیشن