میٹرو پولیٹن سٹی

میٹرو پولیٹن سٹی

میاں شہبازشریف کو تیسری مرتبہ وزیر اعلی بننے کا اعزا ز حا صل ہوا ہے یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے۔ وہ اس وقت ملک کے 62فیصد عوام کے منتخب نمائندے اور وزیر اعلی ہیں ۔ ان کی صلاحیتیوں کے بارے کوئی دو رائے نہیں ہے۔وہ ا    نتھک انسان ہیں اور آرام پر نہیں بلکہ کام پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ماتحتوں سے بھی دن رات کام میں جتے رہنے کی ہی توقع رکھتے ہیں ۔میاں شہباز شریف پر ایک الزام ہے کہ وہ اپنی تمام توجہ صرف لاہور پر مرکوز رکھتے ہیں ۔ ان پر یہ اعتراض کرنے والے لاہور آئیں اور لاہور کا ”واقعی“دورہ کریں تو انہیں پتہ چلے گا کہ لاہور اتنا صاف ستھرا شہر نہیں جتنا انہوں نے شہرہ سنا تھا۔لاہور ایک کروڑ سے زائد آبادی کا شہر ہے ،اس کا شمار دنیا کے چند بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔لاہور میٹرو پولیٹن سٹی کہلاتا ہے مگر کیا یہ واقعی میٹرو پولیٹن سٹی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کی تمام تر کاوشوں اور خواہشوں کے باوجودضلعی حکومتیں اور میٹرو پولیٹن کارپوریشنز لاہور شہر کو ”میٹرو پولیٹن سٹی“ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ شہرسے تمام تر کوششوں کے باوجود تجاوزات ختم کی جا سکیں نہ مویشی شہر سے باہر نکالے جا سکے ہیں۔ غیر قانونی تعمیرات کو روکا جا سکا ہے نہ ملاوٹ کا خاتمہ ہو سکا ہے۔ غیر قانونی پارکنگ سٹینڈوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے اور دوگنا، سہ گنا فیس وصول کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ صفائی کی صورتحال شہر کو ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے حوالے کرنے اور بجٹ 3 گنا سے بھی زائد کرنے کے باوجود بہتر نہیںہو سکی ہے۔ وزیر اعلیٰ شہبا زشریف اب تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ انہوں نے وزارت اعلیٰ کے پہلے دور میں شہر کو مویشیوں سے پاک کرنے کے لئے مہم شروع کی تھی مگر دوسرے دور میں شہر سے مویشی نکالنے کی نہ مہم شروع ہوئی نہ مویشیوں کو شہر سے نکالا گیا۔ حکومت کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ افسر کو بھی گوالوں پر ”ہاتھ ڈالنے“ کی جرات نہیں ہوئی۔ مویشی گھروں اور باڑوں میں قید نہیں بلکہ شہر بھر میں سڑکوں پر پھرتے ہیں مگر کوئی بھی ”افسر“ طاقتور گوالہ مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کا حوصلہ نہیںکر پاتا۔ گوالوں نے شہر میں تین تین منزلہ باڑے بنا رکھے ہیں۔ تجاوزات کے خلاف بھی پہلے دور میںواقعی مہم چلی تھی مگر اب تجاووزات نے نہ صرف پرانے بلکہ نئے شہر کاحسن بھی گہنا دیا ہے۔ تجاوزات کی وجہ سے شہر کی سڑکیں اس قدر تنگ ہو گئی ہیں کہ گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے اورخطیر زرمبادلہ خرچ کر کے منگایا گیاکروڑوں روپے کا پٹرول ضائع ہو جاتا ہے۔ شہر فضائی آلودگی میں دنیا کے بدترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے ۔ شہر میں معروف سڑکوں کے بعد گلی محلوں میں بھی کثیر المنزلہ کمرشل پلازے تعمیر ہو رہے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔غیر قانونی تعمیرات کا عالم یہ ہے کہ شہر میں ہر بڑی اور مصروف سڑک پر غیر قانونی کمرشل پلازے تعمیر ہو رہے ہیں۔ شاہراہ قائداعظم بھی غیر قانونی تعمیر کی زد میں ہے ۔شاہراہ قائداعظم پر نقشہ کی منظوری صرف چیف سیکرٹری دے سکتا ہے مگرریگل چوک میں المکہ موبائیل سنٹر کی بالائی منزل پربغیر نقشہ غیر قانونی طور پر بنائی گئی 82دکانوں کو تین برسوں میں کوئی نہیں گرا سکا۔ جسٹس(ر)خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں شاہراہ قائد اعظم کا تاریخی ورثہ بحال کرنےوالی کمیٹی بھی ان غیر قانونی دکانوںکو معمولی نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکی۔ ملاوٹ میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ سب سے زیادہ ملاوٹ حسب معمول بچوں کے استعمال کے لئے خریدے جانے والے دودھ میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ چائے کی پتی، سرخ مرچ، ہلدی، مصالحہ جات سمیت ہر چیز میں ملاوٹ موجود ہے۔ غیر قانونی پارکنگ سٹینڈ ضلعی وٹاﺅن افسران کی کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئے۔ پارکنگ سٹینڈوں پر دو اور تین گنا فیس وصولی معمول بن گئی۔ سڑکوں پر پیچ ورک نہ کئے جانے سے سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ ہو گیاہے ۔سڑک میں پڑنے والے گڑھوں کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں اضافہ ہو گیاہے۔ گڑھوں کی وجہ سے گاڑیوں کی ٹوٹ پھوٹ بھی بڑھ گئی ہے جبکہ گڑھوں کی وجہ سے بھی ٹریفک سست رفتار ہو گئی اور لمبی قطاریں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ سٹریٹ لائٹس بند رہنے سے شہر کی سڑکیں مزید غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ ڈاکے بڑھ گئے ہیںاور مزاحمت کرنے والوں میں ڈاکوﺅں نے موت بانٹنا شروع کر دی ہے۔ سٹریٹ لائٹس بند ہونے سے بھی ٹریفک حادثات اور اموات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ آوارہ کتوں کے خلاف مہم کاغذات تک محدود ہو جانے سے شہر میں کتوں کی تعداد میں خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے اور کتے کے کاٹے کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وال چاکنگ کا صفایا بار بار احکامات کے باوجود نہیں ہوا۔ البتہ وال چاکنگ کی صفائی کے نام پر لاکھوں روپے بلدیاتی افسران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ صفائی کا نظام محکمہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے قائم کئے گئے پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ اور اب صفائی کی ذمہ داری سالڈ ویسٹ کمپنی کو سونپے جانے کے باوجود بہتر نہیں ہو سکا۔ شہر میں آج بھی کوڑے کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ سڑکوں پر اڑتی دھول اور گاڑیوں کے ٹریفک جام کے باعث دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔لاہور پر انگلیاں اٹھانے والے ”سیاستدان“کیوں بھول جاتے ہیں کہ لاہور پاکستان کا دل اور دوسرا سب سے بڑا شہر اور صوبے کا دارلحکومت ہے ۔ اس کا استحقاق زیادہ ہے ۔یہاں میٹرو بس ضرور چلتی ہے ۔ مگر اس کے ساتھ ہی میٹرو بس کے پل کے نیچے وہی ”چنگ چی“ چلتا ہے جو پنجاب کے تمام شہروں میں چلتاہے۔لاہور میں آج بھی نلکوں سے جو پانی برآمد ہوتا ہے وہ پینے کے قابل نہیں ہوتا ہے۔یہاں پنجاب کے دوسرے شہروں کی طرح کوڑے کے ڈھیر موجود ہیں (صرف ماڈل ٹاﺅن ،ڈیفنس، گلبرگ سے باہر نکل کر شمالی لاہور تک جانے کی دیر ہے )۔ لاہور کو اچھا کہہ کر اپنے حلقے کے عوام میں نفرت کے بیج بونے والے اپنے حلقوں میں لگنے والے فنڈز کا استعمال صحیح بنا لیتے تو ان کے شہر بھی آج لاہور جیسے نہ سہی اس سے ملتے جلتے ضرور ہوتے۔

ای پیپر دی نیشن