صحافت میں گنے چُنے افراد ہی تھے جنہوں نے نظریاتی صحافت کے پیٹرن پر کام کیا ہے وہ اور جنس کے لوگ تھے جو شعبہ صحافت کو ’’ایثار پیشہ ‘‘ سمجھتے تھے مگر مو جودہ دور کی صحافت میں ’’دینار پیشہ‘‘ لوگ کچھ زیادہ ہی داخل ہو گئے ہیں جو ہر بات کو درہم و دینار کی ترازو سے تولنے لگے ہیں، مو لانا محمد علی جوہر مرحوم کے ’’کامریڈ‘‘ نے انگریز حکومت کی پریڈ لگوانے میں اہم کردار ادا کیا اور کون نہیں جانتا کہ انکے اخبار ’’ہمدرد‘‘ نے استعمار کے ایجنٹوں اور ایجنڈوں کی طرف سے اڑائی گئی ساری گرد بٹھا دی، مولانا ظفر علی خاں کا معروف اخبار ’’زمیندار‘‘کو کون فراموش کر سکتاہے جس نے گورے سامراج کی قبائے زرکو سرِبازار تار تار کر دیا جناب حمید نظامی مرحوم کے ہاتھوں سے لگایا گیا پودا ’’نوائے وقت‘‘جو اب ایک شجر ِسایہ دار کی حیثیت رکھتا ہے نے ہر دور میں اپنے آپ کو داغِ ندامت سے محفوظ رکھا ہے اور آج آپ کے برادر عزیز جناب ڈاکٹر مجید نظامی نے بھی صحافت میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ’’دیہاڑیوں‘‘ اور سیاست کی خاردار ’’جھاڑیوں‘‘ سے اپنے دامن کو بچا کر صاف ستھرا رکھا ہوا ہے جناب ڈاکٹر مجید نظامی بحمدللہ تعالیٰ جنسِ بازار نہیں بنے، جنابِ ڈاکٹر مجید نظامی نے ادارہ نوائے وقت کو فکری غلاظتوں اور مالی کثافتوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا، ’’امن کی آشا‘‘ والوں نے تو ہمیشہ غیروں کے حقوق کی پاسداری کی اور پرایوں کی ثقافت کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مگر صحافت کی تاریخ گواہ ہے کہ ادارہ نوائے وقت نے ہمیشہ اسلامی کلچر کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور جنابِ مجید نظامی نے تو ہر پلیٹ فارم پر دو قومی نظریہ کی ڈٹ کر حمایت کی ہے۔ (صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی)
’’امن کی آشا ‘‘ اور ڈاکٹرمجید نظامی
Jun 10, 2014