کراچی کے ڈی جی رینجر جرنیل کی وردی میں ائر پورٹ کے لئے اپنی کامیابیوں کی کہانی فخریہ بیان کر رہے تھے۔ انہیں میڈیا پر آنے کا بڑا شوق ہے۔ پہلے کراچی کے بارے میں تو بات کر لیں۔ آپ رینجرز کے انچارج ہیں اور وہاں کیا ہو رہا ہے؟ اب تو یہ بریفنگ بھی آپ نہیں دے سکتے مجھے وردی والے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ میرا ابا بہت سوہنا تھا اور وردی میں اور سوہنا لگتا تھا۔ ان کا یہ جملہ میرے دل پر لکھا ہوا ہے مگر مجھے اپنے گریبان میں جھانکنے سے ڈر لگتا ہے۔ ’’باوردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔‘‘
نوائے وقت اور سارے اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ دہشت گردوں کے پاس بھارتی ساختہ اسلحہ تھا۔ یہ اسلحہ انہیں کس نے دیا۔ اس کے استعمال کی تربیت کس نے دی۔ بتایا گیا ہے کہ وہ بڑے تربیت یافتہ تھے۔ یہ تربیت انہیں کس نے اور کہاں دی۔ بھارتی اسلحے کی بات امن کی آشا والے اخبار میں بھی یہ نمایاں طور پر موجود ہے۔ اس نے تو خبر خوش ہو کر دی ہو گی کہ امن کی آشا کا ڈھول زور سے بجایا جائے گا۔ دور کے ڈھول سہانے۔ اب تو نزدیک کے ڈھول بھی سہانے ہو گئے ہیں؟ جیو اور جینے دو۔ اب تو نہ جینے دیا جاتا ہے نہ مرنے دیا جاتا ہے۔ میری مودبانہ نے تجویز ہے کہ بھارتی وزیراعظم کو اس کی ماں کے لئے ایک اور ساڑھی بھیجی جائے مگر اب اس کا رنگ سفید نہ ہو سرخ ہو۔ سفید رنگ پر سرخ پھول بنے ہوئے ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ ایک دفعہ بھارت کا نام تو لیا جائے۔ کراچی ائر پورٹ پر حملہ۔ ممبئی ہوٹل پر حملے سے کمتر ہے۔ یہاں شہید ہونے والوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم نے دس دہشت گرد ہلاک کئے ہیں۔
انصار برنی فوری طور پر دہشت گردوں کے مرنے پر مذمتی بیان دیں گے۔ تقریباً ثابت ہو گیا ہے کہ وہ بھارتی تھے۔ ازبک بھی تھے تو بھارت والوں نے انہیں تیار کر کے بھجوایا ہے۔ افغانستان میں 14 بھارتی قونصل خانوں میں کیا ہو رہا ہے۔ جلدی پیارے پرویز رشید پریس کانفرنس کریں گے۔ کہیں گے کہ اس سے ہماری بھارت دوستی کے لئے کوششوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا برادرم خواجہ سعد رفیق کوئی ایسی بات کریں کہ دل خوش ہو جائے۔ کبھی تو بھارت کا نام لیا جائے۔ پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔ افغانستان میں عبداللہ عبداللہ پر حملے کے لئے پاکستان پر سرکاری طور پر الزام لگایا جا رہا ہے تو کیا۔ کراچی ائر پورٹ پر حملہ اس کے بدلے میں کیا گیا ہے؟ چلیں حساب برابر ہو گیا ہے۔
کہتے ہیں مہران ائر بیس پر بھی دہشت گردوں کے پاس بھارتی اسلحہ تھا۔ کراچی میں مکتی باہنی کی موجودگی کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے بھی بھارتی اسلحے کی بات کھلم کھلا کی ہے۔ نواز شریف کی طرف سے کوئی سرکاری اہلکار بھارت سے پوچھے تو سہی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ بزدلی کی کوئی حد ہوتی ہے۔ یہ زندہ رہنے کا ڈھنگ نہیں ہے۔
ایک بات دکھی دل سے کہ ہمارا ہر حکمران کوئی نہ کوئی ایجنڈا ساتھ لاتا ہے۔ اس کے مطابق حکومت کرتا ہے۔ عالمی قوتیں سازشوں کا دائرہ اس کے آس پاس رکھتی ہیں۔ وہ ایجنڈا مکمل کرتا ہے تو چلا جاتا ہے۔ ورنہ بھیج دیا جاتا ہے۔ مشرف، زرداری، نواز ہر حکمران کسی نہ کسی ایجنڈے کے ساتھ آتا ہے۔ نواز شریف بھارت کے ساتھ دوستی کر کے ہی جائیں گے۔ پاکستان کے ہر ائر پورٹ پر دہشت گرد قبضہ کر لیں تو بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا؟ طالبان سے مذاکرات کی بات جاری رہے گی۔ کراچی ائر پورٹ پر دہشت گردی کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان نے قبول کر لی ہے۔ نوائے وقت کے سابق کالم نگار ممتاز صحافی عرفان صدیقی وقت نیوز پر تشریف لائے اور خوب کہا کہ ہم طالبان سے مذاکرات کی دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ اب یہ خاک خون کی دلدل بننے والی ہے۔ وہ طالبان کمیٹی میں تھے تو لگتا تھا کہ کوئی نہ کوئی نتیجہ سامنے آنے والا ہے۔ شاید اسی لئے انہیں ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد میجر عامر نے بھی بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ اب پروفیسر ابراہیم اور میرے محترم سمیع الحق بیان پہ بیان دیتے جا رہے ہیں۔ یہی مذاکرات ہیں۔ یہ ڈائیلاگ ہیں۔ مکالمہ۔ جس میں دوسرا فریق نہیں ہے۔ ہمکلامی سے خود کلامی بڑی چیز ہے۔ یہی بیان بازی ہے اور یہی مذاکرات ہیں۔ نجی ٹی وی چینل کے نعمان اور امان اللہ سے درخواست ہے کہ وہ پروفیسر ابراہیم اور مولانا سمیع الحق کو بلائیں۔ مذاکرات کو جس طرح انہوں نے مذاق رات بنایا ہے کمال ہو گئی ہے۔ یقیناً یہ کمال کا پروگرام ہو گا۔ پرویز رشید کو بھی بلا لیں تو پروگرام مزید دلچسپ ہو جائے گا۔
ایک اور دلچسپ بات کراچی ائر پورٹ پر ہوئی کہ دہشت گرد وی وی آئی پی راستے سے ائر پورٹ میں داخل ہوئے۔ مرنے سے پہلے ان کی خواہش تھی کہ ہم اسی دروازہ سے داخل ہوں گے جہاں سے وزیراعظم نواز شریف داخل ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بھی اسی دروازے سے کراچی ائر پورٹ پر آنا چاہتے تھے۔ انہیں شرجیل میمن دھوکے سے کہیں اور سے لے آئے۔ اس دوران بلاول بھٹو زرداری کا فون آ گیا تھا اور شاہ جی کو کوئی ہوش نہ رہا۔ وہ نجانے کہاں سے ائر پورٹ آ گئے اور خلائوں میں دیکھتے رہے کہ اب کیا کیا جائے۔ الیکٹرانک میڈیا نے بریکنگ نیوز چلا دی کہ شاہ جی آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ تو پھر ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر کراچی کیا کر رہے تھے؟
رحمن ملک نے کہا ہے کہ طالبان کی نانی ایک ہے۔ ملک صاحب اپنے گھر میں خوف سے کانپتے رہے۔ ٹی وی چینلز پر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سن کر انہیں اپنی نانی یاد آ گئی۔ وہ طالبان کی نانی کی بہن ہے۔ کراچی ائر پورٹ پر پاک فوج آئی تو لوگوں کی جان میں جان آئی۔ آپریشن کامیاب رہا اور آپریشن کے بعد پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔ ائر پورٹ پر ٹینک بھی دیکھے گئے۔ امریکی تھنک ٹینک یاد آ گئے۔ امریکی امن اور جنگ کو ساتھ ساتھ رکھتے ہیں۔ تھنک بھی اور ٹینک بھی۔ سوچ بچار اور مذاکرات بھی ضروری ہیں مگر دوسرے فریق کو طاقت کا یقین نہ ہو تو مذاکرات ہو بھی جائیں تو کامیاب نہیں ہوتے۔ کبھی کوئی کمزور امن نہیں رکھ سکتا۔ طاقت کے اظہار اور استعمال کی ضرورت کم کم پڑتی ہے۔ اپنے آپ کو یقین ہونا چاہئے کہ میں کمزور نہیں ہوں۔
یہ بات پورے کالم کا تقاضا کرتی ہے مگر یہ جملہ سن لیں کہ دہشت گردی کو ’’بزدلانہ‘‘ کارروائی کیوں کہا جاتا ہے؟ دہشت گردی کے بعد سکیورٹی الرٹ کرنے کی خبر بار بار سنائی جاتی ہے۔ اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے کہ چند دنوں کے بعد پھر کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔ کیا اب پاکستان سکیورٹی سٹیٹ بن چکا ہے۔ بات سنی جا رہی ہے کہ فلاں شخص اب سکیورٹی رسک بن گیا ہے؟